اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے سابق جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی اپیل پر جنرل مشرف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف فیصلہ محفوظ کر لیا۔
کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کا سنگین غداری کیس میں تفتیش کا حکم برقرار رکھ کرخصوصی عدالت کی طرف سے نامزدملزموں کے نام نکال دیئے جائیں؟کیا اسلام آباد ہائی کورٹ یا خصوصی عدالت دوبارہ تفتیش کا حکم دینے کا اختیار رکھتی ہے؟کیا کسی کو ملزم نامزد کرنے کے حوالے سے شہادتیں موجود ہیں ؟
مشرف غداری کیس کے حوالے سے سابق جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی درخواست پرسپریم کورٹ میں سماعت کے دوران یہ تمام سوالات اُٹھائے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں ٹرائل روکنے کی کوئی شق موجود نہیں۔پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ وفاقی حکومت ہائیکورٹ میں کہہ چکی ہے کہ وہ سنگین غداری کیس میں از سر نو تفتیش کے لیے تیار ہے۔ اس کے بعد کسی بھی جانب سے عدالت کے پاس اختیار نہ ہونے کی بات کرنا بے بنیاد ہے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ وفاقی حکومت کا اختیار کہ وہ ملزمان کا نام تفتیش میں شامل کرے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کے وکیل نے سپریم کورٹ میں خود کہا کہ مشرف نے بطور آرمی چیف ایمرجنسی کی دستاویزات پر دستخط کیے۔
سپریم کورٹ نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ جنرل مشرف نے ججوں کےساتھ جو بھی سلوک کیا ہو لیکن ہم انصاف کرتے ہوئے آئین اور قانون کو سامنے رکھیں گے،فیصلہ دو تین روز میں سنا دیں گے۔