اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کل تک کے لئے ملتوی ہو گئی، 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرام راجہ نے سپریم کورٹ میں دلائل دیئے، عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا بظاہر جعلی اور خود ساختہ دستاویزات پیش کی گئیں، جس پر سات سال سزا ہوسکتی ہے، ڈیڑھ سال سے پوچھ رہے ہیں جدہ میں پیسہ کہاں سے آیا؟، رقم کہاں سے آئی اس کا جواب نہ ادھر سے آتا ہے نہ ادھر سے، بچے فنڈز کے ذرائع ثابت کرنے میں نا کام ہوئے تو اثر عوامی عہدہ رکھنے والے پر بھی ہوگا۔ سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا جواب دے چکے ہیں، عدالت مانتی نہیں، یہ الگ بات ہے۔
تفصیلات کے مطابق دستاویز پیش کرنے سے پہلے میڈیا میں زیربحث کیوں آئیں؟، عدالت وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ پر برہم ہو گئی، جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم رجہ سے کہا کہ آپ کی تمام دستاویزات میڈیا میں زیر بحث آئی ہیں، آپ نے اپنا کیس میڈیا میں لڑا ہے، باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، جا کر دلائل دے آئیں، سلما ن اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میڈیا کو میری طرف سے دستاویزات نہیں دی گئیں، جسٹس عظمت سعید نے کہا آپ دلائل بھی میڈیا کو دے دیتے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا جے آئی ٹی کے نام پر چند دستاویزات ہمیں موصول ہوئی ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک دستاویز برٹس ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے، دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا مریم نواز کے وکیل نے عدالت میں منروا دستاویزات سے لاتعلقی کا اظہار کیا، جے آئی ٹی نے متعلقہ حکام سے دستاویزات کی تصدیق کرائی تھی، جس پر سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا جے آئی ٹی نے گلف سٹیل مل اور مشینری منتقلی دستاویزات کی تصدیق ابوظہبی کے محکمہ انصاف سے کرائی، اخذ کر لیا فروخت کی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی، نتیجہ اخذ کیا کہ مشینری منتقل نہیں کی گئی، ہماری دستاویزات پر حسین نواز سے جرح نہیں کی جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سلمان اکرم راجہ محکمہ انصاف کا خط پڑھ کر سنائیں، سلمان اکرام راجہ نے کہا محکمہ انصاف نے کہا 12 ملین درہم کی بینک ٹرانزیکشن کبھی نہیں ہوئی۔
حسین اور حسن نواز کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا محکمہ انصاف نے کہا کہ دبئی کسٹمز میں مشینری منتقلی کا ریکارڈ بھی موجود نہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا گلف سٹیل کے 25 فیصد شیئرز فروخت کا معاہدہ حسین نواز نے عدالت میں پیش کیا، معاہدے پر دبئی عدالت کی مہر بھی لگی ہے، محکمہ انصاف نے کہا کہ معاہدے کی تصدیق درست نہیں ہے، ہمیں دیئے گئے معاہدے پر نوٹری پبلک کی مہر تھی، محکمہ انصاف نے نوٹری پبلک کی مہر کو تسلیم نہیں کیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا فروخت کے معاہدے پر حسین نواز سے وضاحت مانگی گئی، طارق شفیع سے بھی معاہدے پر نوٹری پبلک کی وضاحت مانگی گئی، سلمان اکرم راجہ نے کہا حسین نواز خود نوٹری پبلک نہیں کرانے گئے تھے، حسین نواز کی ایما پر کوئی دوسرا شخص گیا تھا، یو اے ای کے محکمہ انصاف کے جواب پر حسین نواز سے جرح نہیں کی گئی، غلطی ہوسکتی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے میاں نواز شریف کے بچوں کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب! تحمل رکھیں، کوئی جلدی نہیں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا دبئی حکام نے دستاویزات اور نوٹری پبلک کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا جےآئی ٹی میں آپ کو نہیں سنا گیا، گلے شکوے دور کریں گے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ دستاویزات دوبارہ دبئی حکام کو بھیجیں؟، یا آپ چاہتے ہیں کہ ہم بیٹھے رہیں، آپ دستاویزات کی تصدیق کرانے جائیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا دبئی حکام کی غطلی سے حسین نواز کو ملزم ٹھہرا دیا گیا، دبئی حکام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کاحق رکھتے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مشینری کی منتقلی پرپہلے کسی نے شک کا اظہار نہیں کیا تھا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ نے پہلے مشینری کی ابوظہبی منتقلی کی بات نہیں کی، جسٹس عظمت سعید نے کہا جب بھی کوئی سوال پوچھا جاتا ہے آپ دستاویز لے آتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اب بھی آپ فروری 2017 کی دستاویز لے آئے ہیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا ان دستاویز کو افسانہ نہیں کہا جا سکتا، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا آپ مزید دستاویز لائے ہیں، ان کو بھی دیکھ لیں گے، جسٹس عظمت سعید نے کہا جو دستاویز دکھا رہے ہیں وہ سب پرائیویٹ ہیں، پرائیویٹ دستاویز میں لکھا جا سکتا ہے کہ مال ٹائی ٹینک میں گیا، جے آئی ٹی رپورٹ پر بار بار حملے نہ کریں، لکھ کر دے دیتے ہیں کہ فیصلہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ پر نہیں کرنا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کرتے ہوئے کہا عزیزیہ سٹیل مل کے 21 ملین کے واجبات نہیں تھے؟، پہلے آپ کہتے تھے دبئی میں فیکٹری لگائی گئی، اب آپ کہتے ہیں مشینری ابوظہبی سے جدہ گئی، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا ایک ریاست سے دوسری ریاست جانے میں کوئی حرج نہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مشینری کی ابوظہبی منتقلی کا ریکارڈ ہونا چاہیئے تھا، اگر دبئی میں اندراج نہیں تو دبئی کے محکمہ کسٹمز کی ضرورت کیا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دبئی سے شارجہ اور ابوظہبی کے لیے کسٹمز اندراج نہیں ہوتا، حسین نواز کو 63 ملین ریال نقد ملے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا خلا کو وقت کے ساتھ پر کیا گیا۔
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا 63 ملین ریال کی رقم عزیزیہ مل ریکارڈ میں آئی، بینک اسٹیٹمنٹ موجود ہے،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ اصل نہیں بلکہ فوٹوکاپی ہے، اگر اسٹیٹمنٹ لے آئے ہیں تو 2 مہریں بھی لگوا لیتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا عزیزیہ سٹیل کے واجبات کسی خفیہ شخص نے ادا کیے، جس پر سلمان اکرام راجا نے کہا معلوم کروں گا کہ واجبات کا کیا بنا؟۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا اس کیس کی تاریخ یہ ہے کہ خفیہ جگہ سے ادائیگیاں ہوتی ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا دستاویز دکھائیں باقی دو حصہ داروں کو حصہ دیا؟، جس پر سلمان اکرم رجانے کہا کہ دستاویز میری جیب میں نہیں جو نکال کر دکھا دوں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دستاویزات کے واضح جواب نہ آنے پر جے آئی ٹی بنانی پڑی، اب کیا سوالات کا اخبار میں اشتہار دے دیں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ موزیک فونیسکا کے ریکارڈ میں ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی دستاویز نہیں تھی، فلیٹس آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدے گئے، لوگ پوچھتے ہیں کہ ان پر الزام کیا ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا الزام یہ ہے فلیٹس وزیر اعظم نے خریدے، بچوں کے پاس فلیٹس کی خریداری کے وسائل نہیں تھے، جسٹس عظمت سعید نے کہا ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکالتا ہے، نیب قانون کے آرٹیکل 9 کو ہم یا وکلا ہی جانتے ہیں، یہی تعین کر رہے ہیں کہ بینی فیشل مالک کون ہے؟، سلمان اکرم راجہ نے کہا ہم کہتے ہیں حسین نواز بینی فیشل مالک ہیں۔ عدالت نے کہا مریم نواز بینی فیشل مالک ثابت ہوئی تو دیکھیں گے انکے پاس پیسے کہاں سے آئے۔
میاں نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا الزام ہے فلیٹس 1993 میں خریدے، ہم کہتے ہیں فلیٹس 2006 میں خریدے، الزام ہے فلیٹس بچوں نے نہیں، کسی دوسرے نے خریدے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا بچوں نے نہیں خریدے تو پھر وزیراعظم نے خریدے، سلمان اکرم راجہ نے کہا میں نے نہیں کہہ کہ فلیٹس وزیراعظم نے خریدے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جعلی دستاویز عدالت میں پیش کرنے کا الزام ہے، جعلی دستاویز پر فوجداری کارروائی بنتی ہے، ایک گھنٹے کے دلائل میں آپ نے کوئی نئی بات نہیں کی، جسٹس عظمت سعید نے کہا آپ ابھی تک چکری سے آگے نہیں نکلے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سٹیل مل کی منی ٹریل کہاں ہے؟، ایک سال سے سوال پوچھ رہے ہیں، جواب یہ ہے کہ کوئی جواب نہیں، بچے ذرائع ثابت نہ کر سکے تو اثر عوامی عہدہ رکھنے والے پر بھی ہوگا، بچے اگر فنڈز کے ذرائع ثابت کر دیتے تو سب بری ہوجاتے، عزیزیہ سٹیل مل خسارے میں چلنا شروع ہوئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا اگر آپ کیخلاف الزامات نہیں تو اپنی توانائی کیوں ضائع کر رہے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قطری خط میں فلیگ شپ، عزیزیہ سٹیل مل کا ذکر نہیں، آپ کہہ رہے ہیں حسن، حسین اور مریم کے اکاونٹس میں رقم آئی، جسٹس عظمت سعید نے کہا آپ کو رقم کی منتقلی کے ذرائع معلوم نہیں، میرے اکاونٹ میں رقم آئے تومجھے مصیبت پڑ جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جدہ میں رقم کہاں سے آئی؟، جسٹس عظمت سعید نے کہا رقم کہاں سے آئی اس کا جواب نہ ادھر سے آتا ہے نا ادھر سے، سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا جواب دے چکے ہیں، عدالت مانتی نہیں، یہ الگ بات ہے۔
وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا جےآئی ٹی کی تحقیقات مکمل نہیں، یہ مزید انکوائری کا کیس بنتا ہے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا آج آپ نئی بات کر رہے ہیں کہ مزید تحقیقات درکار ہیں، جسٹس عظمت سعید نے کہا آپ درخواست ضمانت پر دلائل نہیں دے رہے، سلمان اکرم راجا نے کہا حسین نواز سے رابطہ ہوا ہے، حسین کہتے ہیں 63 ملین ریال عزیزیہ مل کی فروخت سے ملے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا حسین نواز نے خود اقرار کیا ہے کہ 21 ملین ریال واجبات میں ادا کیے، جسٹس عظمت سعید نے کہا 63 ملین ریال کا حسین نواز نےکیا کیا؟، سلمان اکرم راجا نے کہا 63 ملین ریال جدہ سے لندن گئے اور پھر واپس آئے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا آپ نے بینک ٹرانزیکشن نہیں دکھائیں، ہم منی ٹریل کا پوچھ رہے ہیں، بار بار کہا جاتا ہے کہ منی ٹریل موجود ہے، رقم پوائنٹ اے سے بی پر کیسے پہنچی؟۔
جسٹس عظمت سعید نے سلمان اکرم راجا سے استفسار کرتے ہوئے کہا کیا آپ کسی متعلقہ فورم پر تفصیلات دینا چاہتے ہیں، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا یہ بات میں عدالت پر چھوڑؑتا ہوں، غلط کام کا کوئی ثبوت نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا درست کام کے بارے میں بھی کچھ نہیں، سلمان اکرام راجا نے کہا جب تک غلط کاری تعین نہ ہو نیب قانون کا اطلاق نہیں ہوتا، عدالت غیرملکی کاروبار کی تحقیقات نہیں کر سکتی، جسٹس عظمت سعید نے کہا آپ کی ذمہ داری ہے کہ فنڈز کے ذرائع بتائیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ کیس احتساب عدالت بھیج دیں؟، سلمان اکرام راجا نے کہا میں کہہ رہا ہوں معاملے کی مناسب اور جامع تحقیقات ہوں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اگر وضاحت نہ آئے تو سمجھا جاتا ہے کہ کوئی وضاحت نہیں ہے، کیا قطری خاندان سے تعلق قابل قبول وضاحت ہے؟، جس پر سلمان اکرم راجا نے دلائل دیئے کہ میں سمجھتا ہوں یہ قابل قبول وضاحت ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا جب پاناما ایشو آیا تو موزیک فونسیکا سے رابطہ کیا گیا؟، کیا آپ چاہتے ہیں باہمی قانونی تعاون کے تحت دستاویز مسترد کر دیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم نجی کمپنی کی دستاویز مان لیں؟، نجی کمپنی حسین نواز کے لیےکچھ بھی کہہ سکتی ہے۔
کیلبری فونٹ پر عدالت کے اہم ریمارکس
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میں پہلی ٹرسٹ ڈیڈ قمبر گروپ کی جع کرائی گئی، ٹرسٹ ڈیڈ میں نیلسن اور نیکسول کا ذکر تھا، ٹرسٹ ڈیڈ کے وقت کیلبری فونٹ دسیتیاب نہیں تھا، فرانزک آڈٹ کہتا ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے وقت کیلبری فونٹ استعمال نہیں ہوسکتا تھا، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا ہم کیلبری فونٹ پر اپنا موقف دیں گے، جسٹس عظمت سعید نے کہا فرانزک آڈٹ میں پتا چلا کہ دستخط والا صفحہ دوبار استعمال ہوا، رپورٹ میں مریم نواز کے دستخط کو بنیاد بنایا گیا، دونوں صحفات پر غلطی ایک جیسی ہے، بظاہر عدالت میں جعلی اور خود ساختہ دستاویزات پیش کی گئیں، اٹارنی جنرل بتائیں جعلسازی پر کیا کارروائی ہوسکتی ہے، جسٹس اعجاز الا حسن نے کہا اس جرم پر 7 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ جسٹس عظمست سیعد نے سلمان اکرم راجا سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے یہ جرم کیا ہے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیبلری فونٹ کو چھوڑیں، عدالت میں جعلی دستاویزات دی گئیں، ایسا کیسے ہو گیا، ہم سوچ بھی نہیں سکتے، یہ آپ لوگوں نے کیا کر دیا؟ جسٹس اعجازالا حسن نے کہا ٹرسٹ ڈیڈ پر چھٹی کے دن نوٹری پبلک کی مہر لگائی گئی، چھٹی کے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کیلری فونٹ کے علاوہ بھی ٹرسٹ ڈیڈ میں مسائل ہیں، کیا کوئی قانونی فرم فونٹ چوری کر کے استعمال کریگی؟ ایسا تو کوئی طالب علم ہی کر سکتا ہے، قانونی فرم نہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا قطری شہزادے نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا، قطری شہزادے نے پاکستانی قونصلیٹ آنے سے بھی انکارکردیا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا قطری شہزادے نے پاکستانی قوانین کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کیا اب سارے مل کر دوحا چلے جائیں؟، اب تو قطر فلائیٹ بھی نہیں جاتی، جسٹس اعجاز الا حسن نے کہا قطری شہزادہ یہاں آجاتا تو بات ختم ہوجاتی، قطری شہزادہ ویڈیو لنک پر بھی بیان دینے کوتیار نہیں، لگتا ہے قطری شہزادہ فوٹو جینک نہیں، حسن نواز کے اکاؤنٹ میں پیسے کس اکاؤنٹ سے آئے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کیا پیسے ہینڈ کیری کے ذریعے لائے گئے؟ جسٹس عظمت نے کہا کس کے اکاونٹ سے پیسے آئے، بتا دیں، کہانی ختم ہو جائی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا قطری شہزادہ آپ کا سٹار گواہ تھا، شہزادے کو پیش کرنا حسین نواز کی ذمہ داری تھی، جس پر سلمان اکرم راجا نے دلائل دیئے کہ حسین نواز اپنے موقف پر قائم ہے، کوئی غلط کام نہیں کیا۔
جسٹس عظمت سعید نے سلمان اکرم راجا سے استفسار کرتے ہوئے کہا ایف زیڈ ای کمپنی کے لیے پیسے کہاں سے آئے، وزیراعظم کمپنی میں ملازم تھے یاچیئرمین؟، سلمان اکرم راجا نے دلائل میں کہا یہ کمپنی 2006 سے 2014 تک قائم رہی، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کیا وزیراعظم تنخواہ لینے کے اہل تھے؟ تنخواہ لی یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ایف زیڈ ای کمپنی کے ذریعے 650 ہزار پاونڈ فلیگ شپ کمپنی کو بھیجے گئے، یہ فنڈز کہاں سے آئے۔
واضح رہے سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، پی ٹٰی آئی رہنما فواد چوہدری، فیصل جاوید، لیگی رہنما دانیال عزیز، وزیر مملکت عابد شیر علی، پیپلزپارٹی کے رہنما شیری رحمان اور قمرالزمان سمیت دیگرسیاسی رہنما موجود تھے۔