اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ مقدمات میں تاخیر پر عدلیہ اور بار برابر کے ذمہ دار ہیں کیوں کہ انصاف کی فوری فراہمی عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
اسلام آباد میں جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کانفرنس کا مقصد مقدمات میں تاخیر اور زیر التواء مقدمات ہیں، مقدمات میں تاخیر پر عدلیہ اور بار برابر کے ذمہ دار ہیں کیوں کہ انصاف کی فوری فراہمی عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے جب کہ تاخیر کا مسئلہ بار اور بنچ کے باہمی تعاون سے حل ہوگا، بطور عدلیہ سربراہ عدالتی نظام کو ازسرنو مرتب کرنے کے لیے پرعزم ہوں، قانونی تنازعات کے حل کے لیے متعلقہ اداروں کو تعاون کرنا ہوگا، معاشی استحکام کے لیے بھی تمام اداروں کو مربوط انداز میں کام کرنا ہوگا جب کہ منی لانڈرنگ اور سائبر کرائم جیسے مقدمات کے حل کے لیے جدید عدالتی نظام ناگزیر ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ غیر معیاری قانونی تعلیم اور جوڈیشل افسران کی تربیت نہ ہونا بھی فوری انصاف کے راستے میں رکاوٹ ہے جب کہ نظام انصاف قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور تیز تر نظام انصاف کے ذریعے ہی ایسا ممکن ہے، یہ یقینی بنانا ہے کہ مناسب قانونی معلومات شہریوں کے لیے دستیاب ہو جب کہ متبادل نظام انصاف کے لیے مؤثر لائحہ عمل بنانا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کانفرنس کا مقصد سی پیک کے راستے میں بظاہر نظر نہ آنے والے مسائل پر بات کرنا ہے اوراس کانفرنس سے سی پیک کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ قانونی فورم سے بیرونی سرمایہ کاری کے موضوع کا انتخاب کیا گیا، کانفرنس بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں حائل متوقع رکاوٹوں کے تدارک کے لیے ہے اور کانفرنس بیرونی سرمایہ کاری سے حاصل فوائد عام آدمی تک پہنچانے کے لیے ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سی پیک پاکستان اور چین کے درمیان سماجی و اقتصادی ترقی کا بڑامنصوبہ ہے، سی پیک سے بھرپوراستفادے کے لیے معاون عوامل کو مدنظررکھنا ہوگا، سی پیک سے ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھے گی غیرملکی سرمایہ کاری سے متعلق آئینی معاملات کو بھی مدنظررکھنا ہوگا۔
جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ سی پیک کی صورت میں پاکستان معاشی سنگ میل عبور کرنے کے قریب ہے، بطور قوم سی پیک کے ذریعے آنے والی سرمایہ کاری زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے جب کہ عدلیہ ملک کی معاشی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں۔