تحریر : پروفیسر رفعت مظہر دو بڑوں کی ملاقات ہوئی، غلط فہمیاں دور ہوئیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹویٹ واپس لیا اور معاملات بطریقِ احسن طے پا گئے لیکن اپوزیشن کے ہاں صفِ ماتم بِچھ گئی کیونکہ وہ تو کچھ اور ہی سوچے بیٹھی تھی۔ اُس کے خیال میں تو ڈان لیکس اتنا بڑا سکینڈل تھا کہ حکومت کا دھڑن تختہ ”ہووے ای ہووے”۔ اُنہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اچانک سارے معاملات کیسے طے ہوئے اور سیاسی و عسکری قیادت کیوں کر ایک دفعہ پھر ایک صفحے پر ہو گئی۔ بیچارے شیخ رشید کی یہ ایک ہی پیشین گوئی ایسی تھی جس پر دوسرے لوگ بھی کچھ کچھ یقین کرنے لگے تھے اور دروغ بَر گردنِ راوی ، شیخ صاحب نے تو لال حویلی میں چراغاں اور آتش بازی کا سامان بھی منگوا لیا تھا لیکن ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سُنا افسانہ تھا ”۔ اب شیخ صاحب چوری چوری ، چپکے چپکے یہ سامان آدھی قیمت پر فروخت کرنے کے لیے گاہک کی تلاش میں ہیں۔
اُدھر وزیرِاعظم صاحب آناََ فاََ سارے معاملات طے کرکے چین کے چھ روزہ دورے پر جا چکے ہیں۔ چاروں وزرائے اعلیٰ بھی اُن کے ساتھ ہیں۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر افہام و تفہیم کے وہ مناظر دیدنی تھے جب وزیرِاعظم کی سربراہی میں چاروں وزرائے اعلیٰ ہوائی جہاز کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ۔ یہی وہ پیغام ہے جو دنیا کو جانا چاہیے کہ جب بات قومی وقار اور قومی مفاد کی ہو ، تو ہم سب ایک ہیں ۔ ڈان لیکس کے معاملے پر دنیا کو ایک انتہائی غلط پیغام پہنچا اور چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حکومت اور عسکری قوت کو ہم پلّہ رکھا جا رہا ہے ۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں ہے ۔ اُنہوں نے کہا ”قائدِ ایوان اور اپوزیشن لیڈر میری رہنمائی کریں کیونکہ آئین و قانون کے تحت مصلح افواج کا مکمل اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے ۔ فوج وزارتِ دفاع کے ماتحت ہے اور اِس حوالے سے رولز آف بزنس 1973 واضح ہیں ”۔ میاں رضاربانی دبنگ آدمی ہیں اور وہی کہتے ہیں جو آئین و قانون کے مطابق ہوتا ہے ۔ وہ پیپلز پارٹی میں ضرور ہیں لیکن اُن میں ”پیپلیوں” جیسی ایک بھی بات نہیں ۔ پتہ نہیں وہ پیپلز پارٹی کا ساتھ کیسے نبھاتے جا رہے ہیں ۔ بہرحال اب معاملہ طے ہو چکا اور فوج نے بھی کہہ دیا کہ وزیرِاعظم ہی فائنل اتھارٹی ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے تبھی تو جمہوریت کا نخلِ نَوخیز پَل بڑھ کر جواں ہو گا۔
حقیقت بہرحال یہی ہے کہ جب سے میاں صاحب برسرِاقتدار آئے ہیں ، کچھ لوگ چور دروازوں کی تلاش میں ہیں ، جن سے گزر کر وہ اقتدار کی سب سے بڑی کرسی پر براجماں ہو سکیں ۔ دو سیاسی جماعتیں تو اِس منظر نامے میں بہت واضح ہیں ۔ وہ دونوں ویسے تو ایک دوسرے کی شدید مخالف ہیں لیکن جب میاں صاحب کو اقتدار سے ہٹانے کی بات ہوتی ہے تو ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیتی نظر آتی ہیں ۔ جب ڈان لیکس پر آئی ایس پی آر کا ٹویٹ سامنے آیا تو اُن کی اُمیدوں کے چراغ روشن ہو گئے اور مسندِ اقتدار بَس دو ، چار ہاتھ کے فاصلے پر ہی دکھائی دینے لگی ۔ اُن کی ہر صبح اِس آس میں طلوع ہوتی کہ بس آج کے دِن امپائر کی انگلی کھڑی ”ہووے ای ہووے”’۔ اُنہیں اِس سے تو کچھ غرض نہیں کہ جمہوریت باقی رہتی ہے کہہ نہیں ۔ مطمح نظر بس ایک کہ میاں صاحب سے اقتدار چھن جائے۔
وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی نے پریس کانفرنس میں اِسی دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سول ملٹری تعلقات کو پوری دنیا میں انتہائی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے ۔ اِس پر تماشا لگانا یا سیاست کرنا انتہائی معیوب ہے ۔ ڈان لیکس اتنا بڑا مسٔلہ نہیں تھا ، جتنا بنا دیا گیا ۔ حکومت کو کچھ چھپانا ہوتا تو پہلے ایک کمیٹی ، پھر بڑا کمیشن نہ بنایا جاتا ۔ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے والے چودھری نثار علی خاں نے مزید کہا کہ اِس کمیشن میں تمام سٹیک ہولڈرز موجود تھے ۔ یہ سب با عزت اور سینئر لوگ تھے ۔ اگر حکومت نے کسی شخص یا گروپ کو بچانا ہوتا تو تحقیقات کے لیے کمیٹیاں نہ بناتی ۔ ڈان لیکس پر آنے والی رپورٹ متفقہ تھی ۔ وزیرِ اعظم آفس کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن اِس پر تماشہ کھڑا کیا گیا ۔ وزارتِ داخلہ نے تو جو نوٹیفیکیشن جاری کرنا تھا ، وہ کیا ۔ یہ کمیٹی کی متفقہ سفارشات کی روشنی میں کیا گیا ۔ کمیٹی نے مکمل اختیارات کے ساتھ کام کیا اور حکومت نے تو کمیٹی کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کی ۔ کمیٹی نے جو سفارشات دیں ، اُن پر عمل درآمد ہو گیا ۔ اب یہ معاملہ ختم ہو گیا ۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔
ہمیں چودھری نثار علی خاں کی باقی تمام باتوں پر تو مکمل اتفاق ہے لیکن ”آگے بڑھنے ” والا معاملہ ذرا گَڑ بڑ ہے کیونکہ اگر ہم سب کچھ بھول کر آگے بڑھ گئے تو پھر نہ جلسے جلوس ہوں گے ، نہ ریلیاں ہوں گی اور نہ ہی میوزیکل کنسرٹ ، اِس لیے ہمیں تو یہ ہر گز قبول نہیں ، کیونکہ ہمیں تو جھپٹنے ، پلٹنے ہی میں مزہ آتا ہے ۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو پھرسیاست میں کیا خاک مزہ رہ جائے گا ۔ بھائی ! پاکستان میں دھوم دھڑکا ہی سیاست کا دوسرا نام ہے ۔ یہاں قومی و ملکی مفاد کو کون دیکھتا ہے ۔ ہماری سیاسی زندگی تو منحصر ہی ”ہاؤ ہو” اور طعنوں مہنوں پر ہے ۔ غیر پارلیمانی زبان کا استعمال ہماری سیاسی زندگی کا جزوِ لایَنفک اور جھوٹ کی فصل اُگانا اَوجِ سیاست۔ اِس لیے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ویسے بھی اب عام انتخابات قریب سے قریب تر ۔ اگر ایسے میں ہم ڈان لیکس کو بھول گئے اور پاناما پیپرز سے صرفِ نظر کر گئے تو پھر ہمارے پاس انتخابی اکھاڑے میں کودنے کے لیے بچے گا ہی کیا؟۔ آپ جتنی مرضی پریس کانفرسیں کرکے قومی درد کا درس دیتے رہیں ، ہم پر ”کَکھ” اثر نہیں ہونے والا ۔ ویسے آپ کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ یہ کام چھوڑ دیں کیونکہ اپوزیشن کے حلقوں میں اب وزیرِ اعظم سے کہیں زیادہ آپ کی مخالفت پائی جاتی ہے اور پیپلز پارٹی تو عرصۂ دراز سے آپ کا پیچھا کر رہی ہے ۔ اُس کی تو تان ہی اِس مطالبے پر ٹوٹتی ہے کہ وزیرِ داخلہ استعفےٰ دیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے سنگھاسن نے ہم سے ہماری ساری حب الوطنی اور مِلّی یکجہتی چھین لی ہے اور ہم صرف احتجاج کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔ پہلے دھاندلی کے الزام پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل 126 روزہ دھرنا ہوا ، پھر تحقیقاتی کمیشن بنا جس نے صاف کہہ دیا کہ 2013ء کے انتخابات شفاف تھے ۔ جب بات نہ بنی تو اودھم مچانے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈنے شروع کیے ۔ جب پاناما لیکس کا شور اُٹھا تو اُن کے تَنِ مردہ میں جان پڑ گئی ۔ لگ بھگ ایک سال گلی گلی میں پاناما لیکس کا شور اُٹھتا رہا اور الزامات کی بارش ہوتی رہی لیکن پھر بھی گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا اور جے آئی ٹی بن گئی جسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا ۔ اسی دوران ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کا غلغلہ اُٹھا اور بہانے تراشنے والوں کے ہاتھ احتجاج کرنے کا بہانہ آ گیا ۔ اب ڈان لیکس پر بھی معاملات طے ہوگئے لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو گی کیونکہ یہ سڑکوں پہ نکلنے کے لیے کوئی اور بہانہ تراش لیں گے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ آخر کب تک ۔۔۔۔۔ کب تک قوم ایسے مہربانوں کے چنگل میں گرفتار رہے گی۔