کیوبا کے صدر راؤل کاسترو نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے ملک پر عائد تجارتی پابندیاں اٹھا لے۔ ان کی جانب سے یہ مطالبہ دونوں ممالک کی جانب سے سفارتی اور معاشی تعلقات کو معمول پر لانے کے اعلان کے بعد کیا گیا ہے۔
راؤل کاسترو نے کہا ہے کہ ’پانچ دہائیوں سے عائد پابندیوں نے انسانی اور اقتصادی سطح پر بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔‘ کیوبا کے معاشی مقاطعے کے خاتمے کا اختیار امریکی کانگریس کے پاس ہے اور نامہ نگاروں کے مطابق حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلکن پارٹی کے بہت سے ارکان ان پابندیوں کے خاتمے کے حامی نہیں۔
بدھ کو امریکی صدر براک اوباما اور کیوبا کے صدر راؤل کاسترو نے دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے متعدد اقدامات پر اتفاق کیا تھا۔ ان اقدامات میں امریکہ میں قید کیوبن شہری ایلن گروس اور کیوبا میں قید تین امریکیوں کی رہائی بھی شامل تھی۔ امریکہ اور کیوبا کے تعلقات 1960 کی دہائی کے آغاز سے منجمد تھے جب کیوبا میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد امریکہ نے اس سے سفارتی تعلقات ختم کر کے تجارتی پابندیاں لگا دی تھیں۔ تاہم بدھ کو صدر اوباما نے کیوبا کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان کرتے ہوئے اسے ان تعلقات کی تاریخ میں ایک نیا باب قرار دیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ کی موجودہ پالیسی ’متروک‘ ہو چکی تھی اور گذشتہ 50 سال کی تاریخ کی نسبت حالیہ تبدیلیاں ’بہت نمایاں‘ ہیں۔ اس اعلان کے پیچھے ایک سال پر محیط خفیہ سفارت کاری ہے جو کینیڈا اور ویٹیکن میں براہِ راست پوپ کے ساتھ ہوئی۔ صدر اوباما نے بتایا کہ امریکہ آنے والے مہینوں میں کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں سفارتخانہ کھولنے پر بھی غور کر رہا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیوبا میں اب بھی اقتصادی اور حقوقِ انسانی کے حوالے سے اصلاحات کی ضرورت ہے۔
اس اعلان کے بعد بدھ کو ہی قوم سے اپنے خطاب میں کیوبا کے صدر نے کہا کہ ان کا ملک قومی سالمیت، جمہوریت اور داخلی معاملات پر امریکہ سے اختلافی معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اپنے اختلافات کے باوجود مہذب طریقے سے مل جل کر رہنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔‘
کیوبن عوام نے امریکہ اور اپنے ملک کے تعلقات میں بہتری کے اعلانات کا خیرمقدم کیا ہے حکام کے مطابق امریکی اور کیوبن صدور نے منگل کو ایک گھنٹے تک ٹیلیفون پر گفتگو کی جو 1959 میں کیوبا میں آنے والے انقلاب کے بعد دونوں ممالک کے صدور کی پہلی باہمی بات چیت تھی۔ رپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے اس نئی امریکی پالیسی پر تنقید کی ہے اور کہا کہ یہ کیوبا کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور سیاسی نظام کی تبدیلی کے حوالے سے کچھ نہیں کرے گی۔
یاد رہے کہ 2011 میں امریکی صدر براک اوباما نے امریکی شہریوں کے کیوبا جانے پر عائد پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا تھا۔ امریکی صدر نے کہا تھا کہ انھوں نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مذہبی گروپوں اور طالبعلموں کو کیوبا جانے کی اجازت دیں۔