تحریر : شیریں اشرف علی مسلم لیگ نون والو مبارک ہو۔ بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔ نواز حکومت کے خلاف سازش بے نقاب۔ جمہوریت کے خلاف سازش بے نقاب۔ عمران خان اور مولانا طاہر القادری کی خفیہ ملاقات کا انکشاف۔ دونوں نے جمہوریت کے خلاف لندن میں اتحاد بنایا، کینڈا میں اتحاد بنایا اور پتہ نہیں کہاں کہاں یہ دونوں پارٹیوں کے لیڈر ملتے رہے اور جمہوریت کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔ کیا تماشہ ہے یہ…؟ دو بڑی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک ایک جعلی، بد ترین دھاندلی شدہ حکومت کے خلاف اگر 38 دن سے اسلام آباد میں ہیں تو ظاہر ہے یہ دونوں پارٹیوں نے مل کر کوئی لائحہ عمل طے کیا ہو گا۔
وہ لندن میں ملے ہوں یا کسی بھی جگہ، ان کو پورا حق ہے کہ وہ نسل در نسل لوٹ مار کرنے والوں کو جو گھن کی طرح پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرہے ہیں کک آؤٹ کرنے اور خاندانی غلامی سے نجات کے لئے ایک پلیٹ فام پر اکھٹے ہوں اور نوازشریف کی بادشاہت کو ٹھکانے لگانے کی بھر پور کوشش کریں۔ چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ دھرنے والوں کے مطالبات غلط نہیں ہیں، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ موجودہ حکومت بڑے پیمانے پر کرپشن کر رہی ہے ،یہ حکومت بد ترین دھاندلی کی پیداوار ہے میں نے ایک حلقہ دیکھا ہے جس میں بد ترین دھاندلی ہوئی ، دھرنے روکنے کے لئے کنٹینر اور حکومتی کوششیں غیر آئینی ہیں۔
مگر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا وہ آئینی وزیر اعظم ہیں، گویا ان کے نزدیک حکومتی دھاندلی، کرپشن اور غیر آئینی ہتھکنڈے آئین کے مطابق ہے۔۔۔۔ دوسری طرف اعتزاز احسن اور چوہدری نثار کے درمیان ہونے والے جھگڑے میں چوہدری نثار نے چوہدری اعتزاز احسن کو معاف (درگزر) کر دیا، لیکن جب اعتزاز احسن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں معاف (درگزر) کرنے والے کی طرف بڑھے تو معاف کرنے والا اسمبلی فلور سے بھاگ گیا۔ یہ کیسی لڑائی اور کیسی معافی ہے کہ معاف (درگزر) کرنے والا نے لڑائی اور معافی (درگزر) کا مکمل فائدہ بھی اٹھایا اور معاف(درگزر) بھی نہیں کیا۔
Javeed Hashmi
جاوید ہاشمی صاحب نے کہا سانحہ ماڈل ٹاؤن سے بڑی غلطی اور کیا ہوگی، نواز شریف نے اکتیس سالوں میں عوام کے لئے کچھ نہیں کیااور وہ عوام کے مسائل حل ناں کر سکے، کٹہرے میں عمران خان کو نہیں پارلیمنٹ کو ہونا چاہیے،۔۔ مگر آزادی مارچ کو سب سے بڑا دھچکہ بھی انہوں نے ہی لگایا (جاوید ہاشمی صاحب قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور آج کل بیمار ہیں ہماری دعا ہے اللہ تعالی ان کو صحت عطا فرمائے۔ آمین)۔ مولانا فضل الرحمن کی اپنی ہی سیاست ہے۔ انہوں نے عمران خان اور مولانا طاہرالقادری پرذاتی حملوں کے تیر برسانے کے علاوہ کوئی لوجیکل بات نہیں کی صرف لفظ جمہوریت کا رونا روتے رہتے ہیں۔
مولانا شیرانی، مولانا فضل الرحمن کے بارے میں کہتے ہیں کہ فضل الرحمن نے پارٹی الیکشن میں مجھے اپنے مدِمقابل کھڑا نہیں ہونے دیا اور خود پارٹی سربراہ منتخب ہو گئے۔ لیڈر آف دی اپوزیشن حکومتی ارکان سے بڑھ کر نظام سلطنت اور حکومت بچانے کے چکروں میں ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے ان کا جذباتی پن اور حکومت نوازی۔۔ان کی زبان اس چیز کی گوائی ہے کہ ملک میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ اپوزیشن ہے ہی نہیں سب حکومتی جماعتیں ہیں، خورشید شاہ سے گزارش ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپوزیشن لیڈر نہیں حکومتی نمائندہ بیان کیا کریں۔
Imran Khan
محمود خان اچکزئی بھائی کی گورنری اور خاندان کی اعلی پوزیشنز بچانے کے لئے بہت محنت کررہے ہیں اور کامیاب بھی ہورہے ہیں۔ یہ وہی اچکزئی ہیں جنہوں نے قائدِ آعظم کی زیارت میں رہائش پر حملے کے موقع پر احتجاج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔