بچپن سے ہم ایک کہاوت سنتے آئے ہیں کہ بلی شیر کی خالہ ہے، جانوروں کی Species کے بارے میںتو اتنا علم مجھے نہیں البتہ کہاوت کئی بار سنی ہے، بلی شیر کی خالہ ہو یا نہ ہو لیکن تازہ خبر کے مطابق ایک ”انہونی” جاتی عمرہ ،وزیر اعظم پاکستان (پاکستان و پاکستانی عوام سے بے نیاز) کی جائے رہائش پر پیش آ گئی جس میں ”ہولناک” خبر کے مطابق ایک جنگلی بلی جاتی عمرہ کے ”چڑیا گھر” میں خفیہ طور پر گھس گئی حالانکہ وزیر اعظم کے اس چڑیا گھر کی حفاظت پر ”پنجاب پولیس” کے بیسیوں اہلکار مامور تھے لیکن بلی تو شیر کی خالہ تھی وہ کب ، کیسے اور کہاں سے چڑیا گھر میں گھسی اس کی خبر کانوں کان پولیس اہلکاروں کو نہ ہو سکی۔
اگر ہو جاتی تو یہ بات تو طے ہے کہ پولیس اہلکاروں نے بلی کو گرفتار کرکے اس کے پورے خاندان پر اس سمیت دہشت گردی کی دفعات عائد کر دینی تھیں، تازہ ترین خبر کے مطابق وزیر اعظم بلکہ شہنشاہ پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی عمرہ واقع رائے ونڈ میں ایک حصہ ایسا بھی ہے جہاں جہاں پناہ نے اپنی دلعزیز عوام کو پالا ہوا ہے، خبر کے مطابق ”جاتی عمرہ” کے چڑیا گھر میں ایک جنگلی بلی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچتی بچاتی داخل ہو گئی اور جہاں پناہ کے قیمتی مور کھا گئی یعنی قانون کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے بلی نے موروں کا قتل عام کر دیا بس پھر کیا تھا جب اس بات کی خبر شہنشاہ عالم کو ہوئی تو دربار میں سکوت طاری ہو گیا اور جاہ و جلال اپنی انتہا پر پہنچ گیا اور مزید یہ کہ اس جرم کی پاداش میں 21 پولیس اہلکاروں کو غفلت برتنے پر شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا۔
یہ تو بلی کی اچھی قسمت تھی کہ وہ واردات کرکے موقع واردات سے فرار ہو گئی وگرنہ اس کیساتھ کیا ماجرا ہونا تھا یہ تو خدا ہی جانتا ہے اسی پر بس نہیں بلکہ جب پولیس اہلکاروں پر یہ افتاد ٹوٹی تو انہوں نے قیمتی سراغ رساں ”کتوں” کی مدد سے شیر کی خالہ کو تلاش کرنا شروع کر دیا، اب تک کی اطلاعات کے مطابق پولیس اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود ”قاتل بلی” کو ڈھونڈنے میں ناکام ہے ، ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا کے مصداق پولیس اہلکار اس قیامت خیز واقعے کے بعد اپنی نوکریوں کو بچانے کیلئے چلہ کشی کا سوچنے پر مجبور ہو گئے ہوں گے، آخر بات ہی ایسی ہے کہ مور کسی عام شخص کے نہیں تھے اور مور بھی ایسے جو انتہائی قیمتی تھے اتنے قیمتی کے انسانوں کی وقعت اور قیمت ان کے سامنے کچھ بھی نہیں۔۔
بلی کے اس عمل سے ایک بات اور اچھی طرح سامنے آ گئی کہ اس ملک میں پالتو موروں کے قتل کے جرم میں پولیس اہلکاروں کو شو کاز نوٹس جاری ہو سکتے ہیںاور پولیس اہلکاروں کی نوکریاں بھی جا سکتی ہیں لیکن مظفر گڑھ کی آمنہ اور اس جیسے دوسرے لوگوں کیلئے صرف تسلیاں، تشفیاں اور یہ سب کیوں نہ ہو آمنہ اور اس جیسے دوسرے لوگ تو عوام ہیں کوئی وزیر اعظم کے مور تو نہیں اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ جمہوریت کو پروان چڑھانے میں ان موروں کا کتنا کردار تھا ، اور اب موروں کے قتل عام کے بعد روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وطن عزیز کے کرتا دھرتائوں سیاسی رہنمائوں کی جانب سے اس افسوسناک واقعے پر تعزیتی پیغامات جاتی عمرہ پہنچنے شروع ہو چکے ہوں گے اور ہونے بھی چاہئیں کیونکہ ملک و قوم کا اتنا عظیم نقصان جو ہو گیا ہے ، اسی پر بس نہیں بلکہ واقعہ کے ذمہ داران پولیس اہلکاروں کے شوکاز نوٹس جاری کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ انہیں پھانسی کی سزا دینی چاہئے کیونکہ پولیس میں انہیں ملازمت ہی موروں کی حفاظت کیلئے دی گئی تھی۔
Police
اور پولیس اہلکاروں کو اب یہ بات باور کرلینی چاہئے کہ فرائض میں غفلت کتنا بڑا جرم ہے، چند ”شغلی” حلقوں میں یہ باز گشت بھی سنائی دی ہے کہ بعید نہیں ”بلی” کو انتہائی مطلوب فہرست میں شامل کرتے ہوئے اس کے اشتہارات اخبارات میں شائع کروائے جائیں گے، دوسرے ”شغلی” حلقے کا کہنا یہ ہے کہ ہو سکتا ہے اس واقعے کے بعد قومی سطح پر کم از کم تین دن کا سوگ منانے کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے اور بلی کے سر کی قیمت ”ایک کروڑ روپے” انعام بھی رکھی جا سکتی ہے، کچھ ”سنجیدہ” حلقوں نے اس بات کا بھی اشارہ دیا ہے بلی کے اس فعل سے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلے آ جائیں گے اور یہ بھی قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ بلی کے قاتلانہ حملے کے پیچھے کوئی گہری سازش نہ ہو، کہیں بلی پاکستان پیپلز پارٹی یا پاکستان تحریک انصاف کے ”حیواناتی ونگ”سے تعلق نہ رکھتی ہو اور اگر ایسا ہوا تو یہ جمہوریت کیلئے نیک شگون کی بات نہیں ہوگی، کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکمرانوں کی حلیف جماعتیں پارلیمنٹ میں ”مور” کو شہید کا خطاب دینے اور تمغہ جرات دینے کیلئے کوئی قرار داد نہ پیش کر دیں۔
بعض ”ملک دشمن” عناصر بلی کی اس کارروائی کو زبردست خراج تحسین بھی پیش کر رہے ہیں اور بلی کو ہیرو بنانے میں انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ بلی کیخلاف اس کارروائی کے ضمن میں کون کون ازخود نوٹس لیتا ہے اور اس ”سانحے” کا کیا اثر ہوتا ہو، ”شغلی” حلقوں میں یہ بات بھی باز گشت کرتی سنائی دے رہی ہے اس وقعے پر کم از کم ایک پیشہ وارانہ ماہر افراد پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم کے قیام کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، بلی کو کھوجنے والے ”سراغ رساں کتے” سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ آخر بلی کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، کچھ عقل سے پیدل لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بلی تو شیر کی خالہ ہے اور شیر اپنی خالہ کو کچھ نہیں گا یعنی اس کا لحاظ رکھے گا، ایسے لوگوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اور وہ کسی کو بھی نہیں چھوڑتا چاہے خالہ ہی کیوں نہ ہو۔