تحریر : رشید احمد نعیم ایک بار پھر ظلم و بر بریت کی انتہا، سفاکیت کا بد ترین مظاہرہ، روحانی مقام پر دہشت گردی، درجنوں افراد کی شہادت، سینکڑوں خاندانوں میں صفِ ماتم، ستر کے قریب گھرانوں کے چراغ گل، مائوں کی ہری بھری گودیں ا ناً فاناً ویران، بچے باپ کی شفقت سے محروم، بوڑھے والدین کی کمریں ٹوٹ گئیں، ہنستے بستے گھروں کی زند گیاں لُٹ گئیں، ہر طرف کہرام، فضا سوگوار، ہرآنکھ اشکبار، غم وغصے کے بادل چھا گئے، جی ہاں! گزشتہ شام کراچی سے 150 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل حب میں واقع درگاہ شاہ نورانی میں زور دار دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں سترکے قریب افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔
درگاہ شاہ نورانی میں سالانہ میلہ جاری تھا کہ اس دوران مزار کے احاطے میں دھمال کے دوران دھماکا ہوا ۔دھماکے کے بعد مزار میں افراتفری مچ گئی اور ہر طرف قیامتِ صغریٰ برپا ہو گئی ۔ موبائل فون سروس نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو اہلکاروں کو وائر لیس کے ذریعے اطلاع کی گئی جس کی وجہ سے امدادی کاموں میں تاخیر ہوئی اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔یہ دھماکہ بھا رتی ایجنٹ کی گرفتاری کے ردِ عمل کا تسلسل بھی ہو سکتا ہے تحقیقات کرتے وقت اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور کبھی نہیں چا ہے گا کہ پاکستان ترقی و کامیابی کا سفر احسن طریقے سے طے کرے ،یہ تو ہماری حکومت کے ذاتی مفادات وابستہ ہیں جس کی وجہ سے صدائے احتجاج بلند نہیں کی جاتی اگر عوامی دبائو کے تحت کبھی بولنا پڑ جائے تو انتہائی نرم و نازک لب و لہجے میں بات کی جاتی ہے۔
بے گناہوں کا خون بہانے والے انسان نہیں وحشی درندے ہیں ۔ان وحشیوں کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے مگر افسوس صد افسوس کہ میاں برادران کو عوام کے جان و مال کی نسبت بھارت میں اپنا کاروبار زیادہ عزیز ہے جبکہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب خفیہ اداروں کی طرف سے متوقع حملے کی پیشگی اطلاعات فراہم کر دی گئیں تھیں تو پھر سکیورٹی کے منا سب اقدامات کیوں نہ کیے گیے ؟؟؟فول پروف سکیورٹی کے دعوے زمین بوس کیوں ہو گیے ؟؟؟پولیس نا کوں پر عام اور شریف شہریوں کی زندگیوں کو عذاب بنانے والی پولیس کو بارود اُٹھاے سڑکیں اور ناکے عبور کرتا دہشت گرد کیوں نظر نہیں آیا َ؟؟؟ یہ دھماکہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے مگر اس کے باوجود ہمارے دشمنوں نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایٹمی طاقت اس لیے بنا تھا کہ دشمن جب چا ہے ہمارے پھول جیسے بچوں کو شہید کر دے اور جب چاہے جس طرح چاہے ہمارے شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا دے اور ہم بے بسی کی تصویربن کر لاشیں اُتھاتے اور آنسو بہاتے رہیں۔
kulbhushan Yadav
دہشت گردوں کو پکڑنے ،را کے ایجنٹ کی گرفتاری اور بھارت کی مداخلت کے ثبوتوں کے بعد بھی اگر ایٹم بم اور دیگر مزائلوں کا استعمال عمل میں نہیں لانا تو پھر ان کو کب استعمال کرنا ہے؟؟؟کیا یہ کھیلنے کے لیے کھلو نے بناے ہیں یا وطنِ عزیز کی حفاظت کے لیے ہتھیار بناے ہیں ؟؟؟ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے ۔اب دوٹوک فیصلہ کرنا ہو گا صرف خالی احتجاج سے کام نہیں چلے گا لوگوں میں اس واقعہ کے بعد کتنا غم و غصہ پایا جاتا ہے اور کیا کیا سوچتے ہیں محتر م ڈاکٹر ایم ایچ بابر کا مراسلہ ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں کہ” اتنی لاشیں اٹھانے کے بعدآخر کس بات کا انتظار ہے ہمیں؟جب ہر بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارتی را کے پالتو بھیڑیئے پاک دھرتی کے معصوم انسانوں کا شکار کرنے کے لیئے خطہ بلوچستان پر دندناتے پھر رہے ہیں تو ان کو پٹہ آخر کس خوف کے سبب نہیں ڈالا گیا؟جب ان بھیڑیوں کو چرانے والا خبیث کلبھوشن پکڑا جاچکا تھا تو اس کے ساتھی کیوں ابھی تک اس دھرتی پر زندہ گھوم رہے ہیں۔
کلبھوشن یادیو کو فوری طور پر لٹکانے میں آخر کونسا امر مانع ہے؟بھارتی ارادے جب ظاہر ہوچکے ہیں کہ وہ بلوچستان کو اس پاک سر زمین سے الگ کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے تو اس کی آنکھیں ابھی تک سلامت کیوں ہیں؟اب وقت آگیا ہے کہ جو بھی را کا ایجنٹ ظاہر ہو جائے اسے بلا تاخیر اڑا دینا چاہیئے۔ابھی کل کی بات ہے کہ بھارتی کونسل خانے کے ملازمین کو ملک بدر کیا گیا وہ ملازمین تخریبی کارروائیاں کروانے کا سبب بن رہے تھے انکو بھی ملک بدر کرنے کی بجائے سزا دینا زیادہ سود مند تھا پھر ہم ایسا کیوں کر نہیں پائے؟دیکھ لیجیے گا ایسی خبر بھی آجائے گی کہ فلاں کالعدم تحریک نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔تو جہاں سے یا جس بھی ذریعے سے وہ اپنے کئے کا اعتراف کریں اس جگہ تک پہنچنا اس جدید دور میں کچھ مشکل نہیں پھر ہم آخر تاخیری حربے کیوں آزماتے ہیں؟؟؟ کیوں انسانیت کے قاتلوں کو سزا دینے سے ہچکچاتے ہیں۔
اگر کسی نام نہاد کالعدم تحریک کا یہ کام ہے تو اسے بھی صفحہ ہستی سے مٹانا واجب ہو چکا ہے جو تحریکیں اسلام جیسے آفاقی سلامتی کے دین کو آڑ بنا کر انسانی خون پانی کی طرح بہا رہی ہیں ان کا اسلام سے تو کیا انسانیت سے بھی دور دور تک کوئی تعلق نہیں کیونکہ درندوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں یہ کون لوگ ہیں جو انسانی شکل میں ناجانے کونسی مخلوق ہیں جو بے ضرر لوگوں کو بے جرم مارتے چلے جارہے ہیںاور ان کے پاس کونسی ایسی طلسمی ٹوپی ہے کہ اتنے سارے لوگوں کا خون کر کے بڑی آسانی سے سب کی نظروں سے غائب ہو کر کسی اگلی تباہی کی منصوبہ بندی کرنے لگ جاتے ہیں اور ہم بڑے سکون سے اتنا کہہ دینے پر اکتفا کر لیتے ہیں کہ نامعلوم افراد تھے یا پھر ایک ہی خودکش بمبار تھا جس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور پھر پرسکون ہو جاتے ہیں اس بمبار کو یہاں تک آسانی کے ساتھ پہنچانے والے سہولت کاروں تک آخر ہم کب پہنچیں گے؟؟؟ ۔ اس سے پہلے کہ مادر وطن کو کسی بڑے سانحے سے دوچار ہونا پڑے ہر دہشتگر د،ہر انڈین ایجنٹ،ہر ملک دشمن اور ان کے سہولت کاروں کو لٹکا دو اور دھرتی کو بچا لو یقین جانو! دھرتی کے امن کے لیئے اب تمام وطن پرستوں کو ایک ہونا ہو گا اور وطن دشمنوں کی صفیں الٹا نا ہو گا۔ وطن سے مودی ازم اور موذی ازم کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔
Terrorist Organizations
بلا تفریق تحریک و تنظیم،بلا خوف اقتدارو اختیار،جو ہندوستانی یاری کا دم بھرے وطن دشمن ہے مٹا دو اسکو خواہ وہ کوئی بھی ہو اب اگر کوئی رعائت برتی گئی تو تاریخ ہم سے رعائت نہیں کرے گی اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر جو بھی شخص دشمن کو اپنا جانے اور دشمن کے سامنے زبان بند رکھے باوجود اس کے کہ وہ وہ ہمیں نت نئے زخم دیتا رہے لٹکا دو ایسے ہر موذی کو وطن عزیز کی پاک دھرتی جس جس کی وجہ سے بھی اپنے فرزندوں کو اپنے اندر سمو رہی ہے۔دھرتی ماں کی گود اجاڑنے والا ہر دشمن اور اس کا سہولت کار ماں دھرتی کا دشمن ہے اور ماں دھرتی کے ہر فرزند ناصرف افواج پاک بلکہ ہر اس وطن کے بیٹے کا یہ فریضہ ہے کہ مادر وطن کے دشمن کو شناخت کر لے اور پھر اس دشمن کا خاتمہ اپنا فرض سمجھ کر ماں دھرتی کا قرض چکائے جو ایسا نہیں کرتا وہ ماں دھرتی کا کچھ نہیں لگتا۔یاد رکھیئے بزدل دشمن ہمیشہ چھپ کے وار کرتا ہے سامنے آکر للکار کر لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا اور اس کو کامیابی تب ملتی ہے۔ خون کی ہولی کھیلنے میں جب اسے اندر سے کچھ قومی غیرت سے عاری غدار دستیاب ہو جاتے ہیں۔ تب ہی تو دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا ہے۔ ایک سادہ سی مثال پیش کرتا چلوں کہ اگر ایک گائوں کے لوگوں میں اتفاق و اتحاد قائم ہو تو وہاں اجنبی فوری طور پرپہچانا جائے گاکیونکہ ہر ایک باسی تو ایک دوسرے سے واقف ہوتا ہے ایسے علاقوں میں قتل تو کیا چوری بھی نہیں ہوتی مگر جب واردات کرنے والوں کو اسی گائوں سے کوئی رسہ گیر میسر ہو جائے تو وہ آسانی کے ساتھ واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں کسی اجنبی کو وہاں دیکھ بھی لیا جائے تو وہ رسہ گیر اسے اپنا مہمان یا عزیز بتا کر لوگوں کو مطمئن کر دیتا ہے اور لوگ بھی اسے چوہدری کا مہمان سمجھ کر کوئی الزام دے نہیں پاتے وہ بڑی آسانی سے واردات کر کے مال ٹھکانے لگا کر دوبارہ اسی علاقے میں آ جاتا ہے۔
لہذا اب ہمیں بھی ایک قوم بن کر را کے اور دہشتگر تنطیموں کے ان رسہ گیر اور سہولت کار روں کو گردن سے دبوچنا ہو گا جس کے گھرسے، جس کے ڈیرے سے، جس کے سکواڈ سے، جس کے ملازمین میں سے کوئی را کا ایجنٹ یا کسی کالعدم دہشتگر تنظیم کا کوئی شخص مل جائے تو بلا تاخیر پہلے اس سہولت کار یا رسہ گیر کی گردن اڑائی جائے خواہ وہ کوئی بھی ہو اس کے بعد مجرم کو سزا دی جائے ورنہ مجرم اول تو پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر بالفرض محال پکڑے بھی گئے تو وہ رسہ گیر صاحب قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے پھر سے آزاد کروا لے گا ہر ایک دشمن کو پہچاننا ہو گا خواہ وہ اندر سے ہو یا باہر سے۔مذہبی، لسانی اور گروہی اختلافات کو پس پشت رکھ کر قومی اور ملی سوچ کو فروغ دے کر ایک قومی دھارے پر چلنا پڑے گا۔ ہمیں اگر دشمن کو زیر کرنا ہے اور ان غداروں کو بھی اپنی صفوں سے نکال باہر کرنا ہے جو دھرتی ماں کا کھا کر اسی کی رگوں میں دہشتگردی کا تیزاب انڈیل رہے ہیں تو پھر معافی کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر لاشیں گرتی رہیں گی دھماکے ہوتے رہیں گے دھرتی ماں کا وجود لہو میں تر ہوتا رہے گا آئو مادر وطن کے دشمن کا خاتمہ کرنے کا عہد کریں وہ چاہے مکانوں میں ہو یا ایوانوں میں اسے ڈھونڈ ھ نکالیں اور مادر وطن کی لاج بچالیں۔
Rasheed Ahmad Naeem
تحریر : رشید احمد نعیم سینئر ممبر کالمسٹ کونسل آف پاکستان .. صدر الیکٹرونک میڈیا حبیب آباد پتوکی