یہ کس کیٹگری کے مزدور ہیں؟

Assembly Members

Assembly Members

تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر
ابھی کل کی بات ہے کہ اسمبلی فلور پہ یہ بات گردش کر رہی تھی کہ اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے ۔اور کتنا اضافہ درکار ہے معزز ممبران پارلیمنٹ کو اپنی تنخواہوں میں ؟جو کم و بیش اڑھائی لاکھ روپے ماہانہ جیسی قلیل تنخواہ پہ اتنی مشقت کر رہے ہیں کہ چوٹی سے ایڑھی تک انکا پسینہ سوکھنے نہیں پاتا بیچارے گرمی سے بے حال رہتے ہیں اور اجرت صرف اڑھائی لاکھ ماہانہ علاو ہ الائونسز بس ۔کتنی بڑی زیادتی ہو رہی ہے بیچارے مشقتیوں پر ، اور ایک طرف اس ملک کا مزدور ہے جو چادہ ہزار روپے کی خطیررقم ماہانہ میں بھی خوش نہیں ۔واہ صاحبان عقل خرد اور حاملان جاہ و حشمت آپ کی سوچ پر سو بار قربان ہونے کو جی چاہتا ہے ۔بڑی معصومیت سے بیان داغ دیتے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے ۔اڑھائی لاکھ ماہانہ میں تو بیچارے غریب ،مفلس اور قلاش فاضل اراکین کے بچوں کی ماہانہ فیسیں بھی ادا نہیں ہوتیں اتنے مجبور وبیکس ہیں یہ لوگ ! مزدور کی اجرت چودہ ہزار ماہانہ کر دی اس سے بڑی فیاضی کیا دکھاتی ہماری معصوم حکو مت؟۔

مگر آج میری بحث چودہ ہزار روپے ماہانہ والے مزدور سے بھی امیر و کبیر اس مزدور پر ہے جسے ماہانہ اجرت پانچ سو روپے سے پندرہ روپے تک دی جاتی ہے ۔جس کے لئے کبھی کسی حکومت نے باقاعدہ کبھی کوئی قانون سازی نہیں کی ۔اور اگر غلطی سے کوئی قانون بنا بھی ہوا تو اس پر آج تک کبھی کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔ایسے مزدور سے میری مراد گھریلو ملازمہ خواتین ہیں ۔ جو صفائی ستھرائی ،برتن کپڑے دھونے کے عوض کم سے کم ماہانہ اجرت پانچ سو روپے اور زیادہ سے زیادہ پندرہ سو تک تنخواہ کی مد میں حاصل کرتی ہیں یا پھر اگر کوئی مالک کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کام کی تقسیم کے لحاظ سے بھی اجرت دیتے ہیں مثال کے طور پر برتن دھونے کا ایک ہزار ماہانہ کپڑوں کی دھلائی کا ہزار روپے مہینہ اور گھر کی صفائی کا ہزار روپے مہینہ مگر ایسا خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

Poor Women

Poor Women

جس ملک میں اڑھائی لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والے غرباء ہوں تو پھر ان خواتین کو کیا لکھنا چاہئے ؟کتنی امیر ہیں یہ حوا کی بیٹیاں ؟وہ اپنا گزر بسر کیسے کرتی ہیں کبھی ہم نے اپنے ذہنوں کو زحمت دی کہ معاشرے کے ایسے کرداروں پر بات کریں ؟ہاں کبھی کبھی رمضان المبارک اور عیدین پر کچھ اترن اور تھوڑا راشن دے کر ہم ان کی دعائیں لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ۔اور اپنے تئیں ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مجبور و لاچار لوگوں کی ہم مدد فر ما رہے ہیں ایسے لوگوں کی مجبوری ہم ختم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟اپنے گھر کے نظام کو چلانے کے لئے باامر مجبوری چار چار گھروں کا کام سنبھالنا پڑتا ہے اور پھر چار گھروں کا کام کرنے کے بعد جب وہ اپنے گھر آتی ہے تو اپنے بچوں کی خاطر اسے پھر کام کرنا ہے ۔تو اس کا وجود کتنی تھکان محسوس کرتا ہو گا ذرا خود پر طاری کر کے دیکھیں اس ماں بہن یا بیٹی کی تھکن کہ کس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گی وہ عورت جو چار گھروں میں کام کے عوض زیادہ سے زیادہ چھ ہزار ماہانہ کما رہی ہے ؟اتنا کام کا بوجھ ہو گا تو کیا طرح طرح کی بیماریاں اسے لاحق نہیں ہونگی ؟اسے علاج معالجے کی ضروریات بھی ہوںگی ؟اس کے دل میں بھی یہ ارمان ضرور مچلتے ہونگے کہ میرے بچے بھی پڑھ لکھ کر بڑی شخصیات بنیں ؟مگر کیسے ؟؟؟۔

کیا وہ گھریلو خادمہ نسل در نسل خادم اور خادمائیں ہی جنتی اور پالتی رہے گی ؟ صرف گھریلو ملازمہ ہی نہیں میری اس پاک دھرتی پر بسنے والی بہت سی حوا کی جائیاں ایسی ہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بڑی محنت اور جانفشانی سے خدمات سر انجام دے رہی ہیں اور معاوضے کی مد میں اسے مرد کی ندبت کس قدر قلیل معاوضہ دیا جاتا ہے اس پر کبھی کسی نے غور کرنے کی کوشش کی ؟ہر گلی محلے میں پرائیویٹ سکولز کے نام پر بہت سی انڈسٹریاں چل رہی ہیں وہاں لیبر کرنے والی خواتین کو جانتے اجرت میں کیا دیا جاتا ہے ؟محض پندرہ سو سے پانچ ہزار تک ماہانہ جس میں میری ہی دھرتی کی وہ بیٹیاں مستقبل کے معماروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصروف عمل ہیں یقین جانیں وہ اپنی محنت اور لگن سے سکولز کے نتائج کو بہتر بنانے کی ہر ممکن سعی کرتی ہیں اس کے بدلے میں اسے دیا کیا جاتا ہے پندرہ سو سے پانچ ہزار روپے ماہانہ ۔اور سب سے بڑی بات گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہیں نہ انہیں کل دی جاتی تھیں اور نا آج ۔اب ذرا ہوٹل اور ریستورانوں میں کام کرنے والی بچیوں کو دیکھیں جو استقبالیہ پر اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتی ہیں تقریبا بارہ گھنٹے ڈیوٹی کے عوض انہیں ماہانہ اجرت کی مد میں دیا کیا جاتا ہے ؟پانچ سے دس ہزار روپے ماہانہ ۔جن ریستورانوں کے ایک کسٹمر کا بل کم از کم ہزار سے بارہ سو روپے بنتا ہو وہان اس خاتوں کو اتنی اجرت دینا کیا انصاف کے زمرے میں آتا ہے ؟۔

Nurses

Nurses

پرائیویٹ ہسپتالوں میں بحثیت نرس ڈیوتی کرنے والی لڑکی آج بھی چار ہزار سے آٹھ ہزار ماہانہ لے رہی ہے اس کے بر عکس آپ دیکھیں جس ڈاکٹر کے زیر سایہ وہ کام کرتی ہے وہ ایک آپریشن کا بیس ہزار سے پچاس ہزار تک کما رہا ہے ۔ہر اسپتال کے قریب جنرل سٹوروں کی طرح کھلی ہوئی میڈیکل لیبارٹریاں اپنے پاس جس بچی کو ملازمت سے نوازتے ہیں اسے کم سے کم تین ہزار روپے اور زیادہ سے زیادہ آٹھ ہزار ماہانہ دیتے ہیں ۔کیا یہ اجرت جائز ہے ؟اب تو حکومت نے بھی رواں سال کے مالی بجٹ میں مزدور کی کم سے کم ماہانہ تنخواہ چادہ ہزار روپے مقرر کر دی ہے تو کیا یہ کام کرنے والی خواتین مزدوروں میں شمار نہیں کی جائیں گی ؟اگر یہ مزدور ہیں تو ان کو انکا حق کوں دلائے گا ؟۔

مقام حیرت ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے مرد تو درکنار کبھی کسی خاتون رکن نے بھی اس نقطہ پر بات کرنا گوارا نہیں کیا ۔اھائی لاکھ سے جب تنخواہ بڑھانے کی بات کی جائے تو سب ڈیسک بجا بجا کر ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں اور جو خواتین کام کر کر کے ہلکان ہورہی ہیں ان کے حقوق کے بارے میں اسمبلی فلور پر اور کوئی بولے یا نہ بولے کم از کم خواتین اراکین اسمبلی کو لازمی بات کرنا چاہئے ۔عید تہوار پر ان ملازمین کی امداد کر کے مطمئین ہونے والو معا شرے خیرات سے نہیں انصاف سے فروغ پاتے ہیں اور کبھی تو اللہ پاک آپ لوگوں کوانصاف کرنے کی توفیق سے بھی نوازے گا۔

میری فریاد کا اتنا تو اثر ہو جائے
دشت میں خار اگے اور شجر ہو جائے

اب تو معزز اراکین اسمبلی کی تنخواہیں بڑھا ہی دینی چاہئیں کیونکہ انکے اخراجات بہت زیادہ ہیںاور آمدن کم بیچارے نا جانے کس طرح گزارہ کرتے ہونگے اور رہی بات غرباء کی ان کے اخراجات ہی کتنے ہیں ؟ اگر بیمار پڑ جائیں تو سرکاری اسپتالوں میں جائیں ہمیں تو فلو کے علاج کے لئے بھی لندن جانا پڑتا ہے۔ خوف خدا بھی کوئی چیز ہوتی ہے

Dr. M.H Babar

Dr. M.H Babar

تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile ; 03344954919
Mail ; mhbabar4@gmail.com