ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے
اداس راتیں ہیں خواب سارے اجڑ چکے ہیں
ظلمتوں میں ازسرِ نو کیوں بلاتے ہو مجھے
پسپائی
مرے ندیم، مرے ہم نفس، مرے ہمدم
ایک سانحہ
یہ زندگی تو موت سے ابتر لگے مجھے
سمجھوتہ
دو گام گر چلو گے کسی اجنبی کے ساتھ
ذرا سی دیر کو
محبتوں کے نصاب جیسا
کیوں بلندی پا کے ہستی میں اتر جاتا ہوں میں
آج روئے ہیں تنہا بڑی دیر تک
وقتِ رخصت تیری چشمِ تر یاد ہے
تری چوکھٹ پہ سر رکھ کے جو مر جاتے تو اچھا تھا
تم نہ جانے اسکو بھی کیوں بے اثر لکھتے رہے
اس کو بانہوں میں چھپا کر پیار کی باتیں کروں