شام کے درد سے جھولی بھر لی
شدتیں
تم نے دیکھا ہے مجھے
شام کے پار کوئی رہتا ہے
محبت کم نہیں ہو گی
محبت خوبصورت ہے
نہیں شامِ سفر ایسا نہیں ہے
میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے
کر کے کوئی ایک ذرا سی بات سنہری
کبھی فاصلوں پہ کبھی قیام پہ زندگی
اتنا تو ہوتا نہیں کھنڈر شام کے بعد
ہمسفر کوئی بھی نہیں اب تو
ہوائیں لوٹ آئی ہیں
ہمارے دل کی قائل ہو گئی تھی
غم کے پاتال میں تمہیں چاہا
دل کسی بارِ بے وفا کی طرح
دل ابھی لوٹا نہیں
ڈر گئے درد، ستم سہم گئے
چاند کے ساتھ مری بات نہ تھی پہلی سی
ایک دن چاند سے بچھڑنا ہے
اپنی خاطر ہی بنے ہیں تالے
آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بعد
ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں
اب یہی آخری سہارا ہے