وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں
کفِ سفیدِ سرِ ساحلِ تمنا ہے
سزا
تمہاری یاد سے جب ہم گزرنے لگتے ہیں
تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
ہم آندھیوں کے بَن میں کسی کارواں کے تھے
سارے رشتے بھلائے جائیں گے
جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوائیے
ایک آفت ہے وہ پیالئہ ناف
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا
بے قراری سی بے قراری ہے
حسرتِ رنگ آئی تھی دل کو لگا کے لے گئی
غم ہائے روزگار میں الجھا ہوا ہوں میں
کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہو گا
مستئی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے
دل کے ارمان مرتے مرتے جاتے ہیں
مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے
بنامِ فارہہ
گزر آیا میں چل کے خود پر سے
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
ہم کہاں تھے اور تم کہاں جاناں
ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
ہے فصلیں اُٹھا رہا مجھ میں
Page 1 of 212