وہ کیسا خوف تھا کہ رختِ سفر بھی بھول گئے
وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے
وہ بے ارادہ سہی، تتلیوں میں رہتا ہے
اداس شام کی ایک نظم
شام کی حویلی میں
تم نے یہ کہہ دیا کہ محبت نہیں ملی
سمجھوتہ
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
تتلیاں، جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون
تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا
صبح نہیں ہو گی کبھی
سب اپنی ذات کے اظہار کا تماشا ہے
رکتا بھی نہیں ٹھیک سے چلتا بھی نہیں ہے
پرانی کتاب میں رکھی تصویر سے باتیں
روشنی دل کے دریچوں میں بھی لہرانے دے
پچھلے سال کی ڈائری کا آخری ورق
جگنوئوں کو چھپائے پھرتی ہے مٹھیوں میں
نہ کوئی خواب نہ سہیلی تھی
نام لے لے کر نہ میرا شہر کی نظروں میں آ
محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
مرے خلاف ہوا ہے تو اس کا ڈر بھی نہیں
مہتاب رتیں آئیں تو کیا کیا نہیں کرتیں