یارب مجھے لوٹا دے میری جوانی وہ ٹانگوں کی طاقت وہ ہاتھوں کی روانی وہ رات بھر لکھنا نئی اک کہانی وہ نانا وہ دادا کی گونج پرانی بڑھاپا اک بوجھ ہے یہ بات آج جانی یارب دہرائے نہ وقت پھر کہانی…
شبِ ظلمات کا اِنکار ٹھہرو مقابل یا پسِ دیوار ٹھہرو کبھی تو صاحبِ کردار ٹھہرو ہمارے حال سے غافل نہیں تو ہمارے درد کا اِظہار ٹھہرو جبینِ وقت پہ صبحوں کی مانند شبِ ظلمات کا اِنکار ٹھہرو محاذِ فکر پہ زورِ قلم…
سکوتِ شام سے فریاد کرتے بہت بوجھل ہیں تجھ کو یاد کرتے بڑی مدت سے تنہا ہوگئے ہیں تیری محفل کو ہم آباد کرتے اگر ہم بھی زمانہ ساز ہوتے تجھے بھی ساتھ ہی برباد کرتے تحریر : ساحل منیر…
تاروں سے ہمکلام ہیں پہچان لیجئے محرومِ صبح و شام ہیں پہچان لیجئے اِس عہد بے ضمیریء حرف و کلام میں ہم وجہ احترام ہیں پہچان لیجئے شہرہ ہے جس کا مقتلِ عشق و جنون میں وہ شوکت خرام ہیں پہچان لیجئے…
تیری فرقت کا صدمہ باعثِ آزار ہے اب تک دسمبر سے دسمبر تک سفر دشوار ہے اب تک تیری قدموں کی آہٹ کو میری دھڑکن ترستی ہے میرے ہونٹوں پہ تیرے درد کا اظہار ہے اب تک تجھے کھو کر درِ ساقی…
ملتا ہے کیا میلاد میں محفل میں آ کے دیکھ ہوتی ہیں کیسی نوازشیں میلاد نبی کامناکے دیکھ میلاد کی خوشی میں اک ہم ہی نہیں سجاوٹ کرتے اللہ نے کیا ہے آسماں پر چراغاں نظریں اٹھا کے دیکھ کریم ہے بڑا…
مہینہ آخری ہے سال کا اب تو چلے آئو بھروسہ کیا سمے کی چال کا اب تو چلے آئو بنا تیرے زمانے کی رہ پرخار میں ساحل کوئی واقف نہیں احوال کا اب تو چلے آئو تحریر : ساحل منیر…
ہمیں بے آبرو کرنے سے پہلے سوچنا ہو گا تجھے حالات کی کروٹ کو بھی اب دیکھنا ہو گا امیرِ شہر سے کہدو کہ مقتل میں چلا آئے صلیب و دار کی حرمت پہ ساحل فیصلہ ہو گا تحریر : ساحل منیر…
ڈھونڈتا ہے جہان سارا ہمیں پر یہ لگتا ہے سب خسارا ہمیں جب تیرا ساتھ ہی نہ مِل پایا پھر یہ دنیا بھی کیوں گوارا ہمیں اس سے پوچھیں گے پستیوں کا سبب جِس نے افلاک سے اتارا ہمیں دل پہ طاری…
آنکھ سے خواب چرانے کا ہنر آتا ہے ہم کو ہر بات منانے کا ہنر آتا ہے زندگی تجھ سے ملاقات کا حاصل ہے یہی وقت سے پائوں مِلانے کا ہنر آتا ہے تحریر: ساحل منیر…
ساحل تیرا وجود ہے امرت نگر کی شان تیرا قلم ہے حرف کی عظمت کا پاسبان تجھ پر خدائے پاک کی رحمت سدا رہے تیرے تخیلات کی اونچی رہے اڑان تحریر: بشارت شہزاد گل ایم اے۔ایل ایل بی…
تحریر: رضوان اللہ پشاوری ایک دن بجلی آرام فرما رہی تھی اتنے میں جرنیٹر کی شوروغل ہوگئی بجلی غصہ میں کہنے لگی،او!شور بند کر مجھے آرام کرنے دے، تو نے میرا آرام حرام کردیا جرنیٹر پر بجلی کے غصے کا کوئی اثر…
تیری پلکیں میری آنکھوں پہ رہیں سایہ فگن دل تیرے قربِ مسلسل کا طلبگار رہے یوں تیرے لمس کے دریا میں اترنا چاہوں جیسے خوشبو کسی غنچے میں گرفتار رہے ساحل منیر…
گرتے ہوئوں کو تھام لینا عادت میرے نبی کی ہے پھر نہیں مانگنا پڑتا یہ سخاوت میرے نبی کی ہے یوں تو دنیا میں آدم سے عیسی تک انبیاء آئے حشر تک دوعالم میں رسالت میرے نبی کی ہے مجرمو چلے آئو…
من اللہ نور خیرالبشر ہیں آقا رکھے ہوئے امتیوں کی خبرہیں آقا شان نبوت ہے یہ سچے رسول ہو دیتے گواہی تیری شجروحجر ہیں آقا حضرت انس فرمایا کرکے خدمت نبی کی کرتے سب غلطیوں سے درگزر ہیں آقا بنائے سب جہان…
صحرا کی تپتی ریت پر آنے لگی بہار پھر کچھ روز ہم خفا رہے ہونے لگا ہے پیار پھر کس نے کہا کہ چار دن دنیا میں جینی ہے زندگی گر دل میں تھوڑا سا عشق ہو، تو جی اٹھیں مزار پھر…
کبھی محبت تمام لکھ کر کبھی ہواوں پہ نام لکھ کر ستم گر نے سارے ستم توڈ ڈالے مجھے عشق میں نا تمام لکھ کر اسے میں نے دی تھی انگوٹھی نشانی کہ جسکے مشاحبے تھی میری کہانی اسی نے مجھے اپنے…