رنگ و خوشبو کی ہے تجسیم جوانی تیری حرف و اوراق کی تکریم جوانی تیری سانس رکتی ہے تیرے لمس کی خواہش کرتے دل کو کر دیتی ہے دونِیم جوانی تیری ہے تیرے دم سے میرے رنگِ سخن کی شہرت میرے اشعار…
ہر اشک دہائی دے ساحل اِک بار دکھائی دے ساحل اِس شہرِ سِتم کی گلیوں میں اب اِذنِ گدائی دے ساحل ہم جِس کی طلب میں خوار ہوئے وہ دستِ حنائی دے ساحل اِس دردِ ہِجر کی وحشت سے آ ہم کو…
فرشتوں کا ایک جھنڈ سفر پر نکل پڑا! کہکشانوں سے ہوتا ہوا دودھیا راستوں سے گذرتا ہوا بروجوں سے ستاروں کی دنیا سے راستہ کرتا ہوا لا کے فلک سے اِلہ کے سماں تک تیرتا ہوا کہیں روشن دان و قندیلیں ستاروں…
اپنی سولی کو اٹھاتے رہو کچھ دیر ابھی رسم الفت کی نبھاتے رہو کچھ دیر ابھی غم کا احساس جگانے کے لئے آج کی شب جام پہ جام پلاتے رہو کچھ دیر ابھی اس محبت کی صداقت پہ کرے کون یقیں کوئی…
ہم روحِ کائنات ہیں آواز دے ہمیں یزداں کا التفات ہیں آواز دے ہمیں اس شہرِ بد نصیب کی بے کیف بزم میں رنگینیء حیات ہیں آواز دے ہمیں صحرائے زندگانی کی تِشنہ فضائوں میں اِک جامِ حادثات ہیں آواز دے ہمیں…
ہم مسافر ہیں ایسی انجان گزر گاہوں کے جِن پہ چلتے ہوئے وحشت کا گماں ہوتا ہے دم اکھڑتا ہے تو مرنے کا سماں ہوتا ہے آبلہ پا ہیں مگر لمحہء آرام نہیں اپنی قِسمت میں کوئی بھی تو دروبام نہیں ہم…
یهی آثار لگتے هیں, یهی امکان لگتا هے بکیں گے اب دوکانوں پر یهاں یزدان لگتا هے.. دعائیں بیچتاهے رات دن مجبور هاتھوں کو.. یه تاجر بھی تمهیں کیا صاحب_ایمان لگتا هے.. کسی مزار پر جلتے هوئے دیپک کی لو دیکھو شکم…
میرے خوں میں ڈبوئے جسم و جاں کو دھو نہیں سکتے میرے قاتل میری نظروں سے اوجھل ہو نہیں سکتے زمیں پر آگ اور گندھک کی بارش ہونے والی ہے زمیں پر رہنے والے چین سے اب سو نہیں سکتے سبھی دکھ…
کبھی اسے کبھی خود کو رلایا کرتے تھے ہم اپنے غم کی کتھا جب سنایا کرتے تھے تیرا کرم کہ ہوئے آشنائے دربدری کبھی نہ گھر سے قدم بھی اٹھایا کرتے تھے کسی کے لوٹ کے آنے کی جو خبر ہوتی بڑے…
کبھی کبھی تو یہ دل بھی فقیر لگتا ہے تیری نگاہِ طلب کا اسیر لگتا ہے کبھی کبھی تو یہ دل بھی فقیر لگتا ہے تو میرے غم سے کبھی بے خبر نہ تھا اتنا یہ تیرا لہجہ میرے دل پہ تِیر…
غم کے صحرائوں میں گھٹا نہ ملی چاہتوں کی کوئی رِدا نہ مِلی جِس کو پانا جزا سے برتر ہے دکھ تو یہ ہے کہ وہ سزا نہ ملی مسکراہٹ میں پِنہاں زخموں سے کوئی بھی چشم آشنا نہ ملی یوں تو…
سندر آنکھیں یہ آنکھیں آہ !یہ آنکھیں خواب ہی جِن کا مقدر ہیں ذرا ان سے مِلی فرصت تو اشکوں کا سمندر ہیں یہ آنکھیں کتنی اچھی ہیں یہ آنکھیں کتنی سندر ہیں تحریر : ساحل منیر…
ابھی کچھ وحشتوں کے در کھلیں گے چمن میں طائروں کے پَر کھلیں گے ابھی کچھ وحشتوں کے در کھلیں گے خزائوں میںتیری یادوں کے پرچم بہارِ جانفزاء لے کر کھلیں گے وہ دن بھی آئے گا جب تیرے گیسو کسی کی…
جلنے پائے نہ کوئی اور نگر ہوش کے ساتھ جوش و جذبہ بھی ضروری ہے مگر ہوش کے ساتھ ہم کو کرنا ہے ابھی لمبا سفر ہوش کے ساتھ اپنا گھر بار تو شعلوں کے حوالے ہے اب جلنے پائے نہ کوئی…
اپنی انا کے خول سے باہر نہ آ سکے دنیا کے سامنے کبھی کھل کر نہ آسکے ہم سے رہیں زمانے کو کیا کیا شکائتیں لیکن کبھی بھی ہم سرِ منبر نہ آسکے محرومیوں کی دھوپ میں جلتی رہی حیات موسم دیارِ…
مبہم سی اس کی یاد جھونکے کی طرح آتی ہے کبھی دیتی ہے سکون دل کو،کبھی آگ سی لگاتی ہے کچھ دھندلکوں میں چھپے ہیولے سے نظر آتے ہیں کبھی اشکوں میں چھپی صورت موتی کی طرح جھلملاتی ہے بہت دن گذر…
حادثوں کا کمال ہو جیسے تجھ کو کھونا وصال ہو جیسے تجھ سے مِل کر اداس ہو جانا میرا پہلا سوال ہو جیسے وقت بے وقت ہنسنا اور رونا زندگی حسبِ حال ہو جیسے زرد پتوں کا یوں بِکھر جانا بھولا بھٹکا…
سِتم جفا کا دوبارہ کہیں نہ کر جائے وہ شخص مجھ سے کنارا کہیں نہ کر جائے وہ فاصلوں کا تمنائی دِل سنبھلنے تک مسافتوں کا اشارہ کہیں نہ کر جائے ہم ایسے تِیرہ نصیبوں کو واردات ِحیات کسی کی آنکھ کا…
آخری سانس تلک گرچہ لڑے ہیں یارو پھر بھی زندانِ اذیت میں پڑے ہیں یارو اپنے ہی گھر میں زباں کھولتے ڈر لگتا ہے حاکمِ وقت کے دستور کڑے ہیں یارو ہم بھی اس عہد صعوبت کے تمنائی ہیں جِس میں انکار…
بے ارادہ ہی کبھی تجھ سے جدا ہو جائیں کاش اس قید محبت سے رہا ہو جائیں زندگی غم کے اندھیروں میں بسر کرتے ہوئے ہم تیری صبحِ تمنا کی ضیاء ہو جائیں جِس نے چپ چاپ محبت کے ستم جھیلے ہیں…
ہر اک تخلیق کے آگے نئی تخریب سوچی ہے امام دہر بننے کی الٹ ترتیب سوچی ہے ہمیں بس اہلِ دانش ہیں، زمانے کے معلم ہیں نیوٹن، ڈارون، منٹو کی یوں تکذیب سوچی ہے ابھی تک بحرِظلمت میں سرِپیکار ہے مومن سفینہ…
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی دل اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی میں اس کا ہوں، اس کا ہی رہوں گا دل نے یکلخت مجھ سے بغاوت کر دی تری خاموشی نے مجھے، نہ چھوڑا کہیں کا…