چل کے آئے ہیں گنہ گار مدینے والے تیری رحمت کے طلب گار مدینے والے ہم خطا کار ہیں مکار ہیں میرے آقا آئے ہیں ہم ہو کے لاچار مدینے والے ہم خطا کار ترے در پہ چلے آئے ہیں اک نظر…
اب کے ان اشکوں کی روانی میں بہہ گئے سارے خواب پانی میں ہجر میں تیرے اب بھی زندہ ہیں لوگ مر جاتے ہیں جوانی میں درد سے واسطہ پرانا ہے ان کو پالا ہے نو جوانی میں روگ ایسا لگا جوانی…
بہت تھک گیا ہوں خطا کرتے کرتے مدینے میں جاؤں حیا کرتے کرتے درودوں کی مالا پروتا میں جاؤں ثنا پڑھتے پڑھتے دعا کرتے کرتے حق انسانیت کا ادا کرتے کرتے گذاری عمر شکر خدا کرتے کرتے دیا زخم جس نے بھی…
سجدے میں پڑے کرتے رہیں شکر خدا کا امت ہیں ہم اس کی جو ہے محبوب خدا کا الفاظ کے موتی یوں مری نعت میں آئیں آ جائے سلیقہ مجھے بھی حمد و ثنا کا آئے جو بلاوا مجھے دربارِ نبی کا…
کوئی مشعل جلے روشنی کے لئے زندگی کے دکھوں میں کمی کے لئے آئو مل کر چلیں دوستی کے لئے اپنی اپنی انائوں کے بت توڑ کر وقف خود کو کریں عاجزی کے لئے شب گزیدوں کے ارمان مت پوچھئے کوئی مشعل…
آپ ہوتے ہیں جہاں عشق وہاں ہوتا ہے آپ کے چہرے پہ وہ نور عیاں ہوتا ہے چاند اترا ہو زمیں پر یہ گماں ہوتا ہے مصطفٰی آپ کی حرمت پہ ہو مری جاں قربان آپ ہوتے ہیں جہاں عشق وہاں ہوتا…
حسن محمد ﷺ کا عیاں ہوتا ہے سارے عالم میں درودوں کا بیاں ہوتا ہے دنیا میں حسن محمد ﷺ کا عیاں ہوتا ہے ایک ہو جائیں جو عالم میں مسلماں سارے ختم ملعون کا پھر نام نشاں ہوتا ہے ارشیؔ…
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے نہ جانے اب کہاں اس کا ٹھکانہ ہو گیا ہے اسے دیدار کرائے زمانہ ہو گیا ہے قرار آئے گا کیسے ملے بغیر اسے اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے ابھی تو…
اے میرے پاکستان اے میرے گلستان نئی صبح ہے جو اب کے آئی نئے گلوں کا پیام لے کر جن کی خوشبو سے مہکے عالم بہار آئے سلام لے کر اے میری جانِ جاں اے میرے پاکستان میرے جوانوں کی ہمتوں میں…
اب نہ کر چھوڑنا اور روز بلانا مجھ کو کیا ضروری ہے ترا روز رلانا مجھ کو لوگ مصروف ہیں اب یاد رکھیں گے کیا کیا بھول جائے گا کسی روز زمانہ مجھ کو اب میں جو بچھڑا تو شاید نہ کبھی…
کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی ان سے پھر اپنی کوئی رفاقت نہیں رہی شاید اسے ہماری بھی حاجت نہیں رہی کچھ خواب تھے جو میرے وہ سارے بکھر گئے کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی کہتی تھی…
جس قوم کو ترقی کی حاجت نہیں رہی دنیا کو ان کی کوئی ضرورت نہیں رہی کچھ تو زمانے کا اثر ان پر بھی ہوا ہے پہلے سی بچوں میں وہ شرارت نہیں رہی محنت سے جی چرانے لگے لوگ اب یہاں…
الیکشن دیہاڑے عجب نظارے ویکھے چھِترو چھِتری ہُندے ووٹر بیچارے ویکھے بھُل گئی عزت ووٹراں دی تبدیلی دے ایسے آثارے ویکھے پین دی سری کر دے کئی اُتے تھلے ہُندے شمارے ویکھے ووٹ نئیں لبھیا کسے دا پاگلاں وانگ پِھر دے خوارے…
دل کے ویرانے سے اکثر یہ ندا آتی ہے پوچھ اس سے کہ مری یاد بتا آتی ہے ساری محفل کو وہ مسحور بنا جاتی ہے اس کے ہاتھوں سے جو خوشبوئے حنا آتی ہے کل جو کہتے تھے مری آنکھ کا…
میں سمجھا اس کو اپنا سو برباد رہ گیا وہ کسی اور کا تھا سو آباد رہ گیا کتنا عجیب شخص تھا جو مل کے ایک بار کر کے مجھے تباہ خود آباد رہ گیا چلا گیا وہ سارے مرے خواب توڑ…
اپنی آنکھوں میں نئے خواب سجا لے تو بھی اب نہ دے مجھ کو محبت کے حوالے تو بھی میں بھی سینے میں لیئے زخم سدا ہنستا رہا آنکھ میں اشک جو آئیں تو چھپا لے تو بھی اس سرِ عام تماشے…
یہ داستاں ہے میری کوئی دل کشی نہیں میری ہے آپ بیتی مگر آخری نہیں دنیا کو شوق تھا کے کہانی سنے مری ہم نے جو کی شروع کسی نے سنی نہیں تو بھی اپنے روز بدلے رویے کو دیکھ لے یہ…
کمرے کی میز پر رکھا ہوا کانچ کا اک خوبصورت گلدان ادھ کھلی کھڑکی سے آنے والے ہواکے تیز جھونکے کی زد میں آکر گلدان کا میز پر سے گرنا ایک چھنناکے کی آواز کا ابھرنا کانچ کا فرش پر بکھرنا ان…
چلو کچھ خاب پھر سے اپنی آنکھوں میں سجا لیں ہم تمہارا خوبصورت چہرہ آنکھوں میں بسا لیں ہم کئی وعدے ابھی باقی ہیں جو ہم کو نبھانے ہیں ابھی بھی وقت ہے ساری وفاؤں کو نبھا لیں ہم بہت رنجور ہیں…
محبت میں خسارے کا سدا امکان رہتا ہے رہِ غم کے اشارے کا سدا امکان رہتا ہے محبت میں خسارے کا سدا امکان رہتا ہے غمِ دوراں سے بوجھل ہو گئیں سانسیں مگر اب بھی ہمیں تیرے سہارے کا سدا امکان رہتا…
آنکھیں اُٹھا کہ قافلہ سالار ہم ہوئے اقرارِ خاص و عام میں انکار ہم ہوئے ظلم و جبر سے برسرِ پیکار ہم ہوئے ہم کو بتا اے شہر کے فرماں روا ذرا کس وقت تیرے حاشیہ بردار ہم ہوئے ہونٹوں پہ انقلاب…
گناہ گارِ وفا ہیں سزا بحال رہے سفر کٹھن ہے بڑا حوصلہ بحال رہے یہ وحشتوں کا حسیں مشغلہ بحال رہے زمانے تجھ کو ہے جو ناگوار صدیوں سے میرے سخن کا وہی ذائقہ بحال رہے بغاوتوں کے یہ موسم دہائی دیتے…
پکی ہے فصل سروں کی کٹائے دیتے ہیں بہ فیضِ عشق و جنوں لب ہِلائے دیتے ہیں لو آج جھگڑے مٹا کر عروج و پستی کے ہم اس زمیں کو فلک سے ملائے دیتے ہیں اُگیں گے موسمِ صد رنگ راکھ سے…
اپنی تصویر ڈھونڈتا ہوں میں سو رہا ہوں نہ جاگتا ہوں میں کِس اذیت کو جھیلتا ہوں میں ساری دنیا سے بے خبر ہوکر تیرے بارے میں سوچتا ہوں میں جانے کس جرمِ بے گناہی میں اب بھی سولی پہ جھولتا ہوں…