بستی میں دیوانے آئے چھب اپنی دکھلانے آئے دیکھ ترے درشن کے لو بھی کر کے لاکھ بہانے آئے پیت کی ریت نبھانی مشکل پیت کی ریت نبھانے آئے اٹھ اور کھول جھروکا گوری سب اپنے بیگانے آئے پیر، پروہت، ملا، مکھیا…
ہم گھوم چکے بستی بن میں اک آس کی پھانس لیے من میں کوئی ساجن ہو، کو ئی پیارا ہو کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو جب جیون رات اندھیری ہو اک بار کہو تم میری ہو جب ساون بادل چھائے ہوں…
لب پر نام کسی کا بھی ہو، دل میں تیرا نقشہ ہے اے تصویر بنانے والی، جب سے تجھ کو دیکھا ہے بے تیرے کیا وحشت ہمکو، تجھ بن کیسا صبروسکوں تو ہی اپنا شہر ہے جانی، تو ہی اپنا صحرا ہے…
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کا لگانا کیا وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی سوچو تو سہی جس جھولی میں سو چھید…
سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی چمکے عروس…
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سر دارا تمدن آفریں…
ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے پردۂ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں ہے شکت انجام غنچے کا سبو گلزار میں سبزہ و گل بھی ہیں…
لکھا ہے ایک مغربی حق شناس نے اہل قلم میں جس کا بہت احترام تھا جولاں گہ سکندر رومی تھا ایشیا گردوں سے بھی بلند تر اس کا مقام تھا تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے دعوی کیا جو پورس…
شفق صبح کو دریا کا خرام آئینہ نغمۂ شام کو خاموشی شام آئینہ برگ گل آئینہ عارض زبیائے بہار شاہد مے کے لیے حجلہ جام آئینہ حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن دل انساں کو ترا حسن کلام آئینہ ہے ترے…
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا اور اسیر حلقہ دام ہوا کیونکر ہوا جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر…
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبی بھی چھوڑ دے تقلید کی روش سے تو بہتر…
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں ذرا سا تو دل…
تھا تخیل جو ہم سفر میرا آسماں پر ہوا گزر میرا اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی جاننے والا چرخ پر میرا تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے راز سر بستہ تھا سفر میرا حلقہ صبح و شام سے نکلا اس…
لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند سب فلسفی ہیں خطہ ٔمغرب کے رام ہند یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت مشہور…
میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہا عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز تو بھی ہے شیوہ ارباب ریا میں کامل دل میں لندن کی ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجاز جھوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا…
اے چاند! حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے طوف حریم خاکی تیری قدیم خو ہے یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں عاشق ہے تو کسی کا، یہ داغ آرزو ہے؟ میں مضطرب زمیں پر، بے تاب تو فلک پر…
چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس…
اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خدائوں میں بڑا سب…
ہمیشہ صورت باد سحر آوارہ رہتا ہوں محبت میں ہے منزل سے بھی خوشتر جادہ پیمائی دل بے تاب جا پہنچا دیار پیر سنجر میں میسر ہے جہاں درمان درد نا شکیبائی ابھی نا آشنائے لب تھا حرف آرزو میرا زباں ہونے…
آئے جو قراں میں دو ستارے کہنے لگا ایک ، دوسرے سے یہ وصل مدام ہو تو کیا خوب انجام خرام ہو تو کیا خوب تھوڑا سا جو مہرباں فلک ہو ہم دونوں کی ایک ہی چمک ہو لیکن یہ وصال کی…
ہو رہی ہے زیر دامان افق سے آشکار صبح یعنی دختر دوشیزہ لیل و نہار پا چکا فرصت درود فصل انجم سے سپہر کشت خاور میں ہوا ہے آفتاب آئینہ کار آسماں نے آمد خورشید کی پا کر خبر محمل پرواز شب…
وہ مست ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے الہی! پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے تجھے وہ شاخ سے توڑیں! زہے نصیب ترے تڑپتے…
گو سراپا کیف عشرت ہے شراب زندگی اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحاب زندگی موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگی ہے الم کا سورہ بھی جزو کتاب زندگی ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں…
آسماں ، بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے چاندنی پھیکی ہے اس نظارہ خاموش میں صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی بربط قدرت…