سرزمیں دلی کی مسجود دل غم دیدہ ہے ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کیونکر زمیں خانقاہ عظمت اسلام ہے یہ سرزمیں سوتے ہیں اس خاک میں خیر الامم کے تاجدار نظم عالم…
قمر کا خوف کہ ہے خطرہ سحر تجھ کو مآل حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو؟ متاع نور کے لٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو ہے کیا ہراس فنا صورت شرر تجھ کو؟ زمیں سے دور دیا آسماں نے…
قدرت کا عجیب یہ ستم ہے! انسان کو راز جو بنایا راز اس کی نگاہ سے چھپایا بے تاب ہے ذوق آگہی کا کھلتا نہیں بھید زندگی کا حیرت آغاز و انتہا ہے آئینے کے گھر میں اور کیا ہے ہے گرم…
جلوہ حسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب پالتا ہے جسے آغوش تخیل میں شباب ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے ایک افسانہ رنگیں ہے جوانی جس سے جو سکھاتا ہے ہمیں سر بہ گریباں ہونا منظر عالم حاضر…
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق سنگ امروز…
خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش فطرت بے ہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا…
سن اے طلب گار درد پہلو! میں ناز ہوں ، تو نیاز ہو جا میں غزنوی سومنات دل کا ، تو سراپا ایاز ہو جا نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے تمام ساماں ہے تیرے سینے میں ، تو…
تلاش گوشۂ عزلت میں پھر رہا ہوں میں یہاں پہاڑ کے دامن میں آ چھپا ہوں میں شکستہ گیت میں چشموں کے دلبری ہے کمال دعائے طفلک گفتار آزما کی مثال ہے تخت لعل شفق پر جلوس اختر شام بہشت دیدہ بینا…
رو لے اب دل کھول کر اے دیدہ ٔخون نابہ بار وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں…
برما اور دنیا بھر کے مسلمانوں پر ہونے والی قیامت خیز ظلمت پر قلم میرا افسردہ ہے لکھے کیسے کہیں پر دل دریدہ ہے کہیں سینہ بھی چھلنی ہے کہیں زندہ جلایا ہے کہیں بازو کہیں پر سر بھی کٹتے ہیں مسلماں…
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور نہ کھینچ نقشہ کیفیت شراب طہور فراق حور میں ہو غم سے ہمکنار نہ تو پری کو شیشہ الفاظ میں اتار نہ تو مجھے فریفتہ ساقی جمیل نہ کر بیان حور…
زندگانی ہے مری مثل رباب خاموش جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش بربط کون و مکاں جس کی خموشی پہ نثار جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار محشرستان نوا کا ہے امیں جس کا…
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے خوبی قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے خود تڑپتا تھا ، چمن والوں کو تڑپاتا تھا میں تجھ کو جب رنگیں نوا پاتا تھا ، شرماتا تھا میں میرے پہلو میں…
ڈرتے ڈرتے دم سحر سے تارے کہنے لگے قمر سے نظارے رہے وہی فلک پر ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر کام اپنا ہے صبح و شام چلنا چلنا چلنا ، مدام چلنا بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے…
جب دکھاتی ہے سحر عارض رنگیں اپنا کھول دیتی ہے کلی سینہ زریں اپنا جلوہ آشام ہے صبح کے مے خانے میں زندگی اس کی ہے خورشید کے پیمانے میں سامنے مہر کے دل چیر کے رکھ دیتی ہے کس قدر سینہ…
تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے رمز آغاز محبت کی بتا دی کس نے ہر ادا سے تیری پیدا ہے محبت کیسی نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی دیکھتی ہے کبھی ان کو، کبھی شرماتی ہے کبھی اٹھتی…
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا ملی نگاہ مگر فرصت نظر نہ ملی ہوئی ہے زندہ دم آفتاب سے ہر شے اماں مجھی کو تہ دامن سحر نہ ملی بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی نفس حباب…
ہم بغل دریا سے ہے اے قطرہ بے تاب تو پہلے گوہر تھا ، بنا اب گوہر نایاب تو آہ کھولا کس ادا سے تو نے راز رنگ و بو میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو مٹ کے غوغا…
خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی وہی…
تنہائی شب میں ہے حزیں کیا انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا! یہ رفعت آسمان خاموش خوابیدہ زمیں ، جہان خاموش یہ چاند ، یہ دشت و در ، یہ کہسار فطرت ہے تمام نسترن زار موتی خوش رنگ ، پیارے پیارے…
عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے قمر اپنے لباس نو میں بیگانہ سا لگتا تھا نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئین مسلم سے ابھی امکاں کے ظلمت خانے…
اوروں کا ہے پیام اور ، میرا پیام اور ہے عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم یہ بھی سنو کہ نالۂ طائر بام اور ہے آتی تھی کوہ سے…
اے کہ تیرا مرغ جاں تار نفس میں ہے اسیر اے کہ تیری روح کا طائر قفس میں ہے اسیر اس چمن کے نغمہ پیرائوں کی آزادی تو دیکھ شہر جو اجڑا ہوا تھا اس کی آبادی تو دیکھ فکر رہتی تھی…
صبح خورشید درخشاں کو جو دیکھا میں نے بزم معمورہ ہستی سے یہ پوچھا میں نے پر تو مہر کے دم سے ہے اجالا تیرا سیم سیال ہے پانی ترے دریائوں کا مہر نے نور کا زیور تجھے پہنایا ہے تیری محفل…