شورش میخانہ انساں سے بالاتر ہے تو زینت بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو ہو در گوش عروس صبح وہ گوہر ہے تو جس پہ سیمائے افق نازاں ہو وہ زیور ہے تو صفحہ ایام سے داغ مداد شب…
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو شورش سے بھاگتا ہوں ، دل ڈھونڈتا ہے میرا ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو مرتا ہوں خامشی پر ، یہ…
بزم جہاں میں میں بھی ہوں اے شمع! دردمند فریاد در گرہ صفت دانہ سپند دی عشق نے حرارت سوز دروں تجھے اور گل فروش اشک شفق گوں کیا مجھے ہو شمع بزم عیش کہ شمع مزار تو ہر حال اشک غم…
اے آفتاب! روح و روان جہاں ہے تو شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے…
جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا ، یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی…
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں ہوں زمیں پر ، گزر فلک پہ مرا دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں کام دنیا میں رہبری ہے مرا مثل خضر خجستہ پا ہوں میں ہوں…
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے آداب عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟ کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا پھونکا…
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے یاد جس دم…
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب بڑھا اور جس سے مرا اضطراب یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا…
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اڑنے چگنے میں دن گزارا پہنچوں کس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سن کر بلبل کی آہ و زاری جگنو…
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت…
ہم لوگ نہ تھے ایسے جیسے ہیں نظر آتے اے وقت گواہی دے یہ شہر نہ تھا ایسا یہ روگ نہ تھے ایسے دیوار نہ تھے رستے زنداں نہ تھی بستی آزار نہ تھے رشتے خلجان نہ تھی ہستی یوں موت نہ…
اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں تھی سراپا بہار جس کی زمیں کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں تھے اناروں کے بے شمار درخت اور پیپل کے سایہ دار درخت ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں…
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا ابر کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا کبھی صحرا ، کبھی گلزار ہے مسکن میرا شہر و ویرانہ مرا ، بحر مرا ، بن میرا کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو…
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے تو تجلی…
تو شناسائے خراش عقدۂ مشکل نہیں اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں زیب محفل ہے ، شریک شورش محفل نہیں یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو اور تیری…
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے ذرا سی چیز ہے ، اس پر غرور ، کیا کہنا یہ عقل اور یہ سمجھ ، یہ شعور ، کیا کہنا! خدا کی…
اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت بھولے سے کبھی تم نے یہاں پائوں نہ رکھا غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں…
تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیے تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے درد ، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے…
فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا تھا سراپا روح تو ، بزم سخن پیکر ترا زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا دید تیری آنکھ کو اس حسن کی…
میری آنکھوں کا نور ہے تو میرے دل کا سرور ہے تو اپنی وادی سے دور ہوں میں میرے لیے نخل طور ہے تو مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا صحرائے عرب کی حور ہے تو پردیس میں ناصبور ہوں میں…
اک فغان بے شرر سینے میں باقی رہ گئی سوز بھی رخصت ہوا ، جاتی رہی تاثیر بھی مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج میں پشیماں ہوں ، پشیماں ہے مری تدبیر بھی خود بخود زنجیر کی جانب…
تری نگاہ فرومایہ ، ہاتھ ہے کوتاہ ترا گنہ کہ نخیل بلند کا ہے گناہ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا ‘لا الہ الا اللہ’ خودی میں گم ہے خدائی ، تلاش کر غافل! یہی ہے…
کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری میں ایسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا تمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری نہ فقر کے لیے موزوں ، نہ سلطنت کے لیے وہ…