پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی تو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی کافر ہے مسلماں، تو نہ شاہی، نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ…
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر چمن اور بھی، آشیاں اور بھی ہیں اگر…
تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحرِ قدیم گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے عشق بے چارہ نہ مُلّا ہے ، نہ زاہد، نہ حکیم عیشِ منزل ہے غریبانِ محبت پہ…
تجھے یاد کیا نہیں ہے میرے دل کا وہ زمانہ وہ ادب گہِ محبت وہ نگہ کا تازیانہ یہہ بتانِ عصر حاضر کے بنے ہیں مدرسے میں نہ ادائے کافرانہ نہ تراشِ آزرانہ نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشئہ فراغت یہ…
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے…
وہ حرفِ راز کو مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفسِ جبرائیل دے تو کہوں ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخئی افلاک میں ہے خوار و زبوں حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی…
وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی میں کہاں ہوں تو کہاں ہے؟ یہ مکاں کو لامکاں ہے یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی اسی کشمکش میں گزریں مری…
یا رب یہ جہانِ گزراں خوب ہے لیکن کیوں خوار ہیں مردانِ صفا کیش و ہنر مند؟ گو اس کی خدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند تو برگ گیا ہے نہ دہی اہلِ خرد…
یہ کون غزل خواں ہے پُر سوز و انشاط انگیز اندیشئہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز گو فقر بھی رکھتا ہے اندازِ ملوکانہ ناپختہ ہے پرویزی، بے سلطنت پرویز اب حجرئہ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی خونِ دل شیراں ہو،…
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ یک رنگی و آزادی اے ہمتِ مردانہ یا سنجر و طغرل کا آئینِ جہانگیری یا مردِ قلندر کے اندازِ ملوکانہ یا حیرت فارابی، یا تاب و تبِِ رومی یا فکرِ حکیمانہ، یا جذبِ کلیمانہ…
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا جس سمت میں چاہے صفت سیلِ رواں چل وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں…
دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ ترا بحر پر سکوں ہے یہ سکوں ہے یا فسوں ہے نہ نہنگ ہے نہ طوفاں نہ خرابی کنارہ تو ضمیر آسماں سے ابھی…
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں کمالِ صدق و مروت ہے زندگی ان کی معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں قلندرانہ ادائیں سکندرانہ جلال یہ امتیں ہیں جہاں میں…
خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغِ فساں لا الہ الا اللہ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا فریبِ سود…
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا نہ ہوتا گر جدا تن سے…
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں تھیں بنات النعش گردون دن کو پردے میں نہاں شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں قید…
شوق، ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا زخم نے داد نہ دی تنگی دل کی یا رب تیر بھی سینہ بسمل سے پر افشاں نکلا بوئے گل، نالہ دل دودِ چراغ محفل جو تری…
نکتہ چین ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبہ دل اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے کھیل سمجھا ہے…
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا کاد کادِ سخت جانیہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے سینہ شمشیر سے باہر ہے…
منظور ہے گزارشِ احوال واقعی اپنا بیانِ حسن طبیعت نہیں مجھے سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے آزاد رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے…
مدت ہوئی یار کو مہماں کیے ہوئے جوش قدح سے بزمِ چراغاں کیے ہوئے کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو عرصہ ہوا ہے دعوت مثرگاں کیے ہوئے پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں…
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں خیاباں خیابان ارم دیکھتے ہیں دل آشفتگاں خال کنج دہن کے سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں ترے سرو قامت سے اک قد آدم قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں تماشا! کہ اے محو آئینہ…
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے نہ شعلے میں کرشمہ، نہ برق میں یہ ادا کوئی بتائو کہ وہ شوخ تندخو کیا ہے یہ رشک ہے کہ وہ…
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا ترے وعدے پر جئے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا…