ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے…
غنچہ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یوں بو سے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا، کہ یوں پرسش طرز دلبری کیجیے کیا کہ بن کہے اس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں…
دوست خمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے کیا حضرت ناصح گر آئیں، دیدہ…
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے جب کہ تجھ بن…
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں جب وہ…
درد منت کش دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا کتنے شیریں ہیں تیرے لب…
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس…
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور جز وہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے…
کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر…
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ…
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا گر یہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو آپ جانا ادھر…
ایک ایک قطرے کا دینا پڑا حساب خون جگر و دیعت مثرگان یار تھا اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں جاں دادئہ ہوائے…
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا جاتا ہوں داغ حسرت ہستی لیے ہوئے ہوں شمع کشتہ، درخور محفل نہیں رہا مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں شایان…
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک دام ہر موج میں ہے حلقہ مہد کام نہنگ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب دل…
شام کے درد سے جھولی بھر لی ہجر کی گرد سے جھولی بھر لی بھری دنیا میں ہمارے دل نے ایک ہی فرد سے جھولی بھر لی ایک آنسو نے ذرا سا بڑھ کر عارضِ زرد سے جھولی بھر لی تو گیا…
بے تحاشا ہے تجھے یاد کیا اور بھلایا بھی بہت ہے تجھ کو ساری رونق ہی ترے دم سے ہے اور ترے بکھرے ہوئے غم سے ہے جس قدر میں نے تعلق ترا محسوس کیا اتنی گہرائی تو روحوں میں ہوا کرتی…
تم نے مرجھائے ہوئے پھول کبھی دیکھے ہیں؟ دل کی قبروں پہ پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہجر کی لاش کی آنکھوں پہ دھرے تم نے اکتائے ہوئے خواب کبھی دیکھے ہیں؟ درد کی پلکوں سے لپٹے ہوئے گھبرائے ہوئے تم نے بے چین دعائیں…
ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم شام کے پار کوئی رہتا ہے جسکی یادوں سے بندھی رہتی ہے دھڑکن دل کی اور اسے دیکھ کے سینے میں یہی لگتا ہے جیسے ویرانے میں بیمار کوئی رہتا ہے ہم بہت چپ بھی نہیں…
تمہاری تلخیوں سے اور تمہارے نا تراشیدہ رویوں سے تمہاری چھوٹی چھوٹی رنجشوں سے اور بڑی ناراضگی سے بھی محبت کم نہیں ہو گی تمہاری شہر بھر سے دل لگا لینے کی عادت سے تمہاری بے وفائی سے تمہاری بے حسی سے…
محبت میں اگرچہ دل کی آنکھیں مدتوں پلکیں جھپکنا بھول جاتی ہیں مگر ان رتجگوں کے سرخ ڈورے، نیل گوں سنو لاہٹیں اور ابروئوں کی رازداری بھی عجب ایک حسن پیدا کرتی جاتی ہے محبت میں اگرچہ دھڑکنیں اپنا چلن تک چھوڑ…
نہیں شامِ سفر ایسا نہیں ہے مسافر لوٹ کر آیا نہیں ہے ہم اتنے دکھ میں بکھرے ہیں ہمارا حال تم جیسا نہیں ہے میں ایسے شہر میں تنہا کھڑا ہوں جہاں تنہائی بھی تنہا نہیں ہے مرے جیسا نہ تھا آباد…
میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے یہ دل مرا ہے مگر اختیار کس کا ہے یہ کس کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہو فرحت جی یہ مدتوں سے تمہیں انتظار کس کا ہے تڑپ تڑپ کے یہ جب سرد…
کر کے کوئی ایک ذرا سی بات سنہری کر جاتا ہے میری ساری رات سنہری پوری ہو گی میری بھی اک دن امید ہو جائیں گے میرے بھی حالات سنہری ایسے آتے ہیں منور صلیبوں پر ایسے ہوتی ہے تاریخ میں ذات…
کبھی فاصلوں پہ کبھی قیام پہ زندگی میں نے ہنس کے لکھ دی تمہارے نام پہ زندگی میں شروع سے ہی تھا راہِ عشق پہ گامزن تھی عجیب شان کی اختتام پہ زندگی یہ عجیب وقت تو شعر سے بھی بلند ہے…