اتنا تو ہوتا نہیں کھنڈر شام کے بعد جتنا ویران ہوا جاتا ہے گھر شام کے بعد ٹوٹ پڑتی ہے نئی روز خبر شام کے بعد وقت ہوتا ہے عذابوں میں بسر شام کے بعد میری آنکھوں سے برستے ہوئے دریائوں میں…
ہمسفر کوئی بھی نہیں اب تو چارہ گر کوئی بھی نہیں اب تو یار کتنے تھے اچھے وقتوں میں ہاں مگر کوئی بھی نہیں اب تو میں نے دل کو ترے حوالے کیا مجھ کو ڈر کوئی بھی نہیں اب تو شہر…
اگرچہ میں سمجھتا تھا کہ کوئی راستہ لوٹا نہیں کرتا نہ دریا مڑ کے آتے ہیں نہ شامیں واپسی کی سوچ پر ایمان رکھتی ہیں اگرچہ میں سمجھتا ہوں کہ لمحے تو فقط آگے ہی بڑھتے ہیں مگر افسردگی کی اس پرانی…
ہمارے دل کی قائل ہو گئی تھی اداسی کتنی مائل ہو گئی تھی لگا جیسے سمندر آ پڑے ہیں ذرا سی بات حائل ہو گئی تھی وہ جب سانسوں میں تیری خوشبوئیں تھیں ہوا اس رات سائل ہو گئی تھی قدم بجنے…
غم کے پاتال میں تمہیں چاہا ہم نے ہر حال میں تمہیں چاہا جب درختوں پہ پھول آئے تھے بس اسی سال میں تمہیں چاہا کون ہے جس نے یوں ہماری طرح وقت کے جال میں تمہیں چاہا ایک شعلہ سا تھا…
دل کسی بارِ بے وفا کی طرح باخبر ہے بہت خدا کی طرح زندگی بھر تمہارا نام مرے دل سے نکلا کسی دعا کی طرح میں نے ہر موڑ پر تجھے ڈھونڈا ہجر کے شہر کی ہوا کی طرح عمر بھر تیرا…
صبح سے نکلا ہوا ہے گھر سے رات بھی بیت چلی ہے اب تو جانے کس بیتے ہوئے وصل کے کملائے ہوئے در پہ پڑا ہو گا کہیں جانےکس الجھے ہوئے ہجر کےزانو پر ذرا ٹیک کےسر چین سے سویا ہو گا…
ڈر گئے درد، ستم سہم گئے آپ کے ذکر سے غم سہم گئے ہم سمندر کی طرح چپ چپ ہیں وہ سمجھتا ہے کہ ہم سہم گئے آج کیا ظلم میں قدرت ہے بہت آج کیا تیرے کرم سہم گئے ہم نے…
چاند کے ساتھ مری بات نہ تھی پہلی سی رات آتی تھی مگر رات نہ تھی پہلی سی ہم تری یاد سے کل شب بھی ملے تھے لیکن یہ ملاقات ملاقات نہ تھی پہلی سی آنکھ کیوں لوٹ گئی خوف سے صحرائوں…
ایک دن چاند سے بچھڑنا ہے آنکھ، تقدیر، اور تعلق جو جانے کس دوسرے کے بس میں ہیں سانپ بن بن کے ڈستے رہتے ہیں اپنی سانسوں میں ڈوبتے دل کو چاند جس طرز کا مسافر ہے ہجر ہی ہے کہ جو…
اپنی خاطر ہی بنے ہیں تالے عمر بھر ساتھ چلے ہیں تالے ہم عجب قیدی ہیں فرحت جن کے آنسوئوں پر بھی لگے ہیں تالے تم ہمیں کہتے ہو دروازوں کا ہم نے زخموں کو دیے ہیں تالے بے سہاروں کے گھروں…
آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بعد لوٹ جاتا ہے اگر کوئی خفا شام کے بعد وہ جو ٹل جاتی رہی سر سے بلا شام کے بعد کوئی تو تھا کہ جو دیتا تھا دعا شام کے بعد آہیں…
ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں کون جانے کونسا لمحہ ہمارے ہاتھ سے پھسلے، گرے اور پائوں کی زنجیر ہو جائے ابھی یہ دن جو لگتا ہے کہ ہم اک دوسرے کیساتھ رہ سکتے ہیں پل دو پل نجانے کب کہاں…
اب یہی آخری سہارا ہے میں ترا، تو میرا کنارا ہے لوٹنا اب نہیں رہا ممکن تو نے کس موڑ پر پکارا ہے کیا تمہیں اب بھی یاد آتا ہے چاند کے پاس جو ستارا ہے یہ تو سجتا ہے آسمانوں پر…
یہ کہنہ محل، جس کے رنگیں دریچوں سے لپٹی ہوئی عشق پیچاں کی بیلیں منڈیروں، ستونوں پہ پھیلی ہوئی سبز کائی سرِ شام چلتے ہوئے سرد جھونکوں میں سسکاریاں بھر رہی ہے جہاں اب ہوا، اس کے پائیں چمن کے خزاں دیدہ…
مرا دل محبت کا بھوکا بلند، اونچے پیڑوں کے جنگل میں چلتے ہوئے رہووں سے یہ کہتا ہوں مجھ کو اٹھا لو ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے ساتھ ان المناک رستوں میں لیکر چلو جن میں ہر آرزو شام کی راگنی بن گئی ہے…
تیغ لہو میں ڈوبی تھی اور پیڑ خوشی سے جھوما تھا بادِ بہار چلی جھوم کے جب اس نے مجھے دیکھا تھا گھائل نظریں اس دشمن کی ایسے مجھ کو تکتی تھیں جیسے انہونی کوئی دیکھی ان کمزور نگاہوں نے یہ انصاف…
اجنبی شکلوں سے جیسے کچھ شناسائی بھی تھی چاند نکلا ہوا تھا، کچھ گھٹا چھائی بھی تھی ایک عورت پاس آ کر مجھ کو یوں تکنے لگی جیسے میری آنکھ میں کوئی دیکھنے کی چیز تھی دفعتاً لپٹی جو مجھ سے کیا…
مر بھی جائوں تو مت رونا اپنا ساتھ نہ چھوٹے گا تیری میری چاہ کا بندھن موت سے بھی نہ ٹوٹے گا میں بادل کا بھیس بدل کر تجھ سے ملنے آئوں گا تیرے گھر کی سونی چھت پر غم کے پھول…
کب تک چلتا رہے گا راہی ان انجانی راہوں میں کب تک شمع جلے گی غم کی ان بے چین نگاہوں میں وہ بھی بھول گیا ہو گا تجھے دنیا کے جنجالوں میں کتنا بدل گیا ہے تو بھی آتے جاتے سالوں…
جس نے مرے دل کو درد دیا اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں اک رات کسی برکھا رت کی کبھی دل سے ہمارے مٹ نہ سکی بادل میں جو چاہ کا پھول کھلا وہ دھوپ میں بھی کملایا نہیں جس نے…
کسی مکاں میں کوئی مکیں ہے جو سرخ پھولوں سے بھی حسیں ہے وہ جس کی ہر بات دل نشیں ہے کبھی کوئی اس مکاں میں جائے اور اس حسینہ کو دیکھ پائے تو دل میں اک درد لے کے آئے بھرے…
جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھپ رہتے ہیں شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے…
ہنسی چھپا بھی گیا اور نظر ملا بھی گیا یہ اک جھلک کا تماشا جگر جلا بھی گیا اٹھا، تو جا بھی چکا تھا، عجیب مہماں تھا صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا غضب ہوا جو اندھیرے میں جل…