شاموں کی بڑھتی تیرگی میں برکھا کے سونے جنگل میں کبھی چاند کی مٹتی روشنی میں رنگوں کی بہتی نہروں میں ان اونچی اونچی کھڑکیوں والے اُجڑے اُجڑے شہروں میں کن جانے والے لوگوں کی یادوں کے دیے جلاتے ہو؟ کن بھولی…
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھکو کھو دیا، میں نے تجھکو کھویا نہیں نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں ہر طرف دیوار…
بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے میں ہی بس ہوتا ہوں اس کی اس ادا کے سامنے تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سونا کر گئی دیر تک بیٹھا رہا میں اس ہوا کے سامنے رات اک اجڑے…
باد بہار غم میں وہ آرام بھی نہ تھا وہ شوخ آج شام لبِ بام بھی نہ تھا درد فراق ہی میں کٹی ساری زندگی گرچہ ترا وصال بڑا کام بھی نہ تھا رستے میں ایک بھولی ہوئی شکل دیکھ کر آواز…
کبھی چور آنکھوں سے دیکھ لیا کبھی بے دھیانی کا زہر دیا کبھی ہونٹوں سے سرگوشی کی کبھی چال چلی خاموشی کی جب جانے لگے تو روک لیا جب بڑھنے لگے تو ٹوک دیا اور جب بھی کوئی سوال کیا اس نے…
اپنے گھر کو واپس جائو، رو رو کر سمجھاتا ہے جہاں بھی جائوں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے اس کو بھی تو جا کر دیکھو، اس کا حال بھی مجھ سا ہے چپ چپ رہ کر دکھ سہنے سے تو انسان…
آئینہ بن کر کبھی ان کو بھی حیراں دیکھیے اپنے غم کو ان کی صورت سے نمایاں دیکھیے اس دیارِ چشم و لب میں دل کی یہ تنہائیاں ان بھرے شہروں میں بھی شامِ غریباں دیکھیے عمر گزری دل کے بجھنے کا…
وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر مرے لئے کوئی شایان التماس نہیں ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے مرے مزاج کو آسودگی…
ٹھھرا تھا وہ گلعذار کچھ دیر بھر پور رہی بہار کچھ دیر اک دھوم رہی گلی گلی میں آباد رہے دیار کچھ دیر پھر جھوم کے بستیوں پہ برسا ابر سرِ کوہسار کچھ دیر پھر لالہ و گل کے میکدوں میں چھلکی…
سفر منزلِ شب یاد نہیں لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں اولیں قرب کی سرشاری میں کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں وہ ستارا تھی کہ شبنم…
نئے کپڑے بدل کر جائوں کہاں اور بال بنائوں کس کے لیے وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جائوں کس کے لیے جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی ان جلتی بلتی گلیوں…
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد آج کا دن گزر نہ جائے کہیں نہ ملا کر اداس لوگوں سے حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں آرزو…
کون اس راہ سے گزرتا ہے دل یونہی انتظار کرتا ہے دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والے دل تجھے دیکھ دیکھ ڈرتا ہے شہر گل میں کٹی ہے ساری رات دیکھیے دن کہاں گزرتا ہے دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر کوئی…
جرم انکار کی سزا ہی دے میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے شوق میں ہم نہیں زیادہ طلب جو ترا ناز کم نگاہی دے تو نے تاروں سے شب کی مانگ بھری مجھ کو اک اشک صبحگاہی دے تو نے…
عشق میں جیت ہوئی یا مات آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات یوں آیا وہ جان بہار جیسے جگ میں پھیلے بات رنگ کھلے صحرا کی دھوپ زلف گھنے جنگل کی رات کچھ نہ سنا اور کچھ نہ کہا دل میں…
عشق جب زمزمہ پیدا ہو گا حسن خود محو تماشا ہو گا سن کے آوازہ زنجیر صبا قفس غنچہ کا دروا ہو گا جرس شوق اگر ساتھ رہی ہر نفس شہپر عنقا ہو گا دائم آباد رہے گی دنیا ہم نہ ہوں…
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ بس ایک موتی سی چھب دکھاکر بس ایک میٹھی سی دھن سناکر ستارئہ شام بن کے آیا برنگ خواب سحر…
غم ہے یا خوشی ہے تو میری زندگی ہے تو آفتوں کے دور میں چین کی گھڑی ہے تو میری رات کا چراغ میری نیند بھی ہے تو میں خزاں کی شام ہوں رت بہار ہے تو دوستوں کے درمیاں وجہِ دوستی…
دکھ کے لہر نے چھیڑا ہو گا یاد نے کنکر پھینکا ہو گا آج تو میرا دل کہتا ہے تو اس وقت اکیلا ہو گا میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے اوروں کو خط لکھتا ہو گا بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں…
دل میں اک لہر سے اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی شور برپا ہے خانئہ دل میں کوئی دیوار سی گری ہے ابھی بھری دنیا میں جی نہیں لگتا جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی تو شریک سخن…
تو مجھ سے میں تجھ سے دور تنہا تنہا پھرتے ہیں دل ویراں آنکھیں بے نور دوست بچھڑتے جاتے ہیں شوق لیے جاتا ہے دور ہم اپنا غم بھول گئے آج کسے دیکھا مجبور دل کی دھڑکن کہتی ہے آج کوئی آئے…
اپنی دھن میں رہتا ہوں میں بھی تیرے جیسا ہوں او پچھلی رت کے ساتھی اب کے برس میں تنہا ہوں تیری گلی میں سارا دن دکھ کے کنکر چنتا ہوں مجھ سے آنکھ ملائے کون میں تیرا آئینہ ہوں میرا دیا…
آج تو بے سبب اداس ہے جی عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں جانے کیا چیز کھو گئی میری وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی چھپتا پھرتا…
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے درد کی…