ہمیں کس ہاتھ کی محبوب ریکھائوں میں رہنا تھا کس دل میں اترنا تھا چمکنا تھا کن آنکھوں میں کہاں پر پھول بننا تھا تو کب خوشو کیصورت کوئےجاناں سے گزرنا تھا سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہمیں کس قریہ آب و…
تتلیاں، جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون ہم سجا بھی لیں اگر دیوار و در دیکھے گا کون اب تو ہم ہیں جاگنے والے تری خاطر یہاں ہم نہ ہوں گے تو ترے شام و سحر دیکھے گا کون جس…
تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں ہمیں چہرہ نہیں ملتا ہر اک تدبیر اپنی رائیگاں ٹھہری محبت…
صبح نہیں ہو گی کبھی، دل میں بٹھا لے تو بھی خود کو برباد نہ کر جاگنے والے تو بھی میں کہاں تک تری یادوں کے تعاقب میں رہوں میں جو گم ہوں تو کبھی میرا پتہ لے تو بھی اک شبستانِ…
سب اپنی ذات کے اظہار کا تماشا ہے وگرنہ کون یہاں پانیوں پہ چلتا ہے تمام عمر کی نغمہ گری کے بعد کھلا یہ شہر اپنی سماعت میں سنگ جیسا ہے اسے بھی ڈھنگ نہ آئے گا بات کرنے کا مجھے بھی…
رکتا بھی نہیں ٹھیک سے چلتا بھی نہیں ہے یہ دل کہ ترے بعد سنبھلتا بھی نہیں ہے یہ شہر کسی آئینہ کردار بدن پر الزام لگاتے ہوئے ڈرتا بھی نہیں ہے اک عمر سے ہم اس کی تمنا میں ہیں بے…
پرانی کتاب میں رکھی تصویر سے باتیں آج برسوں کے بعد دیکھا ہے اب بھی آنکھوں کا رنگ گہرا ہے اور ماتھے کی سانولی سی لکیر دل میں کتنے دیے جلاتی ہے تیری قامت کے سائے کی خوشبو گفتگو میں بہار کا…
روشنی دل کے دریچوں میں بھی لہرانے دے اس کو احساس کے آنگن میں اتر جانے دے حبس بڑھ جائے تو بینائی چلی جاتی ہے کھڑکیاں کھول کے رکھ، تازہ ہوا آنے دے تیرے روکے سے وہ بد عہد کہاں رُکتا ہے…
پچھلے سال کی ڈائری کا آخری ورق کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا ہم یاد رکھتے ہیں تری باتوں سے اس دل کو بہت آباد رکھتے ہیں کبھی دل کے صحیفے پر تجھے تصویر کرتے ہیں کبھی پلکوں کی چھائوں میں…
نجانےکن غم کے جگنوئوں کو چھپائے پھرتی ہے مٹھیوںمیں کئی دنوں سے اداس رہتی ہے ایک لڑکی سہیلیوں میں کبھی تویوں ہومحبتوں کی مٹھاس لہجوں میں گھول دیکھیں گزرتی جاتی ہے عمر ساری اداس باتوں کی تلخیوں میں ہماری خواہش کےراستوں میںمہک…
نہ کوئی خواب نہ سہیلی تھی اس محبت میں، میں اکیلی تھی عشق میں تم کہاں کے سچے تھے جو اذیت تھی ہم نے جھیلی تھی یاد اب کچھ نہیں رہا لیکن ایک دریا تھا یا حویلی تھی جس نے اُلجھا کے…
نام لے لے کر نہ میرا شہر کی نظروں میں آ مجھ سے ملناہے تو میرے دل کےصحرائوں میں آ اس سفر میں دیکھ گھل جاتا ہے مٹی کا بدن مجھ سے ملنےکی نہ خواہش کر نہ برساتوں میں آ لوگ تجھ…
محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا جلائے رکھونگی صبح تک میںتمہارے رستوںمیں اپنی آنکھیں مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا جو حرف لوحِ وفا…
مرے خلاف ہوا ہے تو اس کا ڈر بھی نہیں یہ جانتے ہیں کہ وہ اتنا معتبر بھی نہیں تجھے بھی دیکھ لیا شامِ وعدئہ آخر اب اعتبار ہمیں تیرے نام پر بھی نہیں یہاں تو سانس بھی لینا محال لگتا ہے…
مہتاب رتیں آئیں تو کیا کیا نہیں کرتیں اس عمر میں تو لڑکیاں سویا نہیں کرتیں کچھ لڑکیاں انجامِ نظر ہوتے ہوئے بھی جب گھر سے نکلتی ہیں تو سوچا نہیں کرتیں یاں پیاس کا اظہا رملامت ہے گناہ ہے پھولوں سے…
اے دلِ بے قرار چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے دیدہ اشکبار! چپ ہو جا جا چکا ہے کاروان لالہ و گل اڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا چھوٹ جاتی ہے…
مانا وادئی عشق میں پائوں اندھا رکھنا پڑتا ہے لیکن گھر کو جانے والا رستہ رکھنا پڑتا ہے تنہائی وہ زہر بجھی تلوار ہے جس کی دہشت سے بعض اوقات تو دشمن کو بھی زندہ رکھنا پڑتا ہے جبر کی جتنی اونچی…
کس کو بھاتی رہی رات بھر چاندنی جی جلاتی رہی رات بھر چاندنی ٹمٹماتے رہے حسرتوں کے دیے مسکراتی رہی رات بھر چاندنی اک حسیں جسم کی طرح آغوش میں کسمساتی رہی رات بھر چاندنی اشک پیتے رہے ہم کسی اور کو…
پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر ہم نے آغوشِ محبت میں سلائے پتھر وحشتِ دل کے تکلف کی ضرورت کے لیے آج اُس شوخ نے زلفوں میں سجائے پتھر ان کے قدموں کے تلے چاند ستارے دیکھے اپنی راہوں میں…
جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے بڑے خلوص سے دل نذر جام کرتا ہے ہم ہی سے قوس و قزح کو ملی ہے رنگینی ہمارے در پہ زمانہ قیام کرتا ہے ہمارے چاک گریباں سے کھیلنے والو ہمیں بہار کا…
تری دنیا میں یا رب زیست کے سامان جلتے ہیں فریب زندگی کی آگ میں انسان جلتے ہیں دلوں میں عظمت توحید کے دیپک فسردہ ہیں جبینوں پر ریا و کبر کی فرمان جلتے ہیں ہوس کی باریابی ہے خودمندوں کی محفل…
آنکھ روشن ہے جیب خالی ہے ظلمتوں میں کرن سوالی ہے حادثوں نے رباب چھیڑے ہیں وقت کی آنکھ لگنے والی ہے حسن پتھر کی ایک مورت ہے عشق پھولوں کی ایک ڈالی ہے آئینے سے حضور کی مانند چشم کا واسطہ…
آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا جب کبھی تقدیر نے گھیرا ہے ہمیں گیسوئے یار کی الجھن کو بہت یاد کیا شمع کی جوت پہ جلتے ہوئے پروانوں نے اک ترے شعلہ…
وہ جو شہر دل تھا اجڑ گیا وہ جو خواب تھا بکھر گیا کبھی موسموں کی نظر لگی کبھی واہموں نے ڈرا دیا کبھی منزلوں کے سراب نے ہمیں راستے میں دغا دیا کبھی زندگی کی کتاب سے ہمیں جس نے چاہا…