وفا جب مصلحت کی شال اوڑھے سرد رت کا روپ دھارے دل کے آنگن میں اترتی ہے تو پلکوں پر ستاروں کی دھنک مسکانے لگتی ہے کبھی خوابوں کے ان چھوئے ہیولوں سے بھی ان دیکھی سی، انجانی سی خوشبو آنے لگتی…
اسے لوح دل پر لکھا تو ہے بڑی شان سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے مان سے تو یہ سوچ گہری سی کس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ عدو ہے دل کے سوال کی یہ کڑی ہے اصل زوال کی ہوں کہن وفائوں کے نقشِ پا یہ مٹائے…
لہو لہو سے گلابوں کی داستاں دیکھو ہوئے ہیں قتل بہاروں میں گلستاں دیکھو سوئے فلک تو سدا دیکھتے ہی رہتے ہو کبھی تو پلکوں پہ بکھری یہ کہکشاں دیکھو کسی نے دل لگی، دل کی لگی کسی نے کہا کسی کے…
اگر بہاروں نے مجھ سے پوچھا چمکتے تاروں نے مجھ سے پوچھا بتائو حسن جہاں کہاں ہے؟ تو برملا میں کہوں گی ان سے تمہیں وہ میری نظر سے دیکھیں تمہارے جیسا کوئی نہیں ہے جو دشت میں ہے گھٹا کی صورت…
خواب آنکھوں کو جگاتے تو کوئی بات بھی تھی دل میں ہلچل سی مچاتے تو کوئی بات بھی تھی مانا ہم سے تو کوئی بات بنائے نہ بنے آپ ہی بات بناتے تو کوئی بات بھی تھی چھوڑ کر جانے کی یہ…
کیسے وہ لوٹ آئے کہ فرصت اسے نہیں دنیا سمجھ رہی ہے محبت اسے نہیں لگتا ہے آ چکی ہے کمی اس کی چاہ میں کافی دنوں سے مجھ سے شکایت اسے نہیں دل کی زمین اس کی ہے بنجر اسی لیے…
جل چکے خواب تو پھر آگ بجھانے آیا اک نئے ڈھنگ سے وہ چوٹ لگانے آیا موم کے پل سے گزر کر مجھے جانا تھا وہاں اور سورج ہی مرا ساتھ نبھانے آیا بالمقابل ہے خزاں، آئینہ خندہ زن ہے شہر ماضی…
اس گلی کا نشاں ملے نہ ملے پھر سے وہ جان جاں ملے نہ ملے نین گویا، تھی مہر ہونٹوں پر پیار کا وہ سماں ملے نہ ملے خود کو ہم حالِ دل سنا ڈالیں کیا خبر رازداں ملے نہ ملے وصل…
اس کی آنکھوں میں اک سایہ ہے چوٹ کھا کر جو مسکرایا ہے یاد بن کر جو رچ گیا خوں میں اس کو سچ مچ بہت بھلایا ہے لوگ کیوں آ گئے مٹانے کو ہم نے کب شہر دل بسایا ہے سوچ…
ہو سکتا ہے مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کچھ کچھ پچھتاتا ہو سنگ سنگ بیتا ہر اک لمحہ اس کو بھی تو یاد آتا ہو لیکن بیچ خلیج انا کی روک رہی ہو رستہ اس کا لوگوں کی باتوں کا ڈر…
کھیلتے کھیلتے دونوں میں سے ایک نے دوجے کی گڑیا کی نوچ لیں آنکھیں لڑکی چیخی دیکھو، تم نے میری گڑیا اندھی کر دی اب سپنے کیسے دیکھے گی؟ لڑکا نادم ہو کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جب ابو جتنا ہو کر، شہر گیا…
ہے وہی آسماں، زمین وہی ماہ و انجم اسی طرح روشن کہکشاں اب بھی مسکراتی ہے پھول کلیاں مہک رہی ہیں یونہی بعد مدت کے سارے پردیسی اپنے اپنے گھروں کو آئے ہیں ہر طرف رنگ و بو کا میلہ ہے اور…
دل میں پھر درد ہوا دیر تلک نہ ملی اس کو دوا دیر تلک میں نے خوشبو کی حقیقت پوچھی پھول خاموش رہا دیر تلک تم نے تو صرف سنا ہی ہو گا میں نے جو درد سہا دیر تلک شب کو…
کسی بھی لمحے، کوئی بھی دھیان میں آ سکتا ہے کسی کی باتیں، کسی کا چہرہ کسی کا دھیما دھیما لہجہ کوئی بھی اپنا یا بیگانہ سوچے بنا، بس بے دھیانی میں نا دانستہ ادھر ادھر کی باتیں کرتے، یک دم دل…
دھوپ اور چھائوں کے نظارے تھے دل کی دولت جہاں پہ ہارے تھے بے وفائی کا اب گلہ کیسا آپ پہلے بھی کب ہمارے تھے میری آنکھوں میں پھیلتے ہوئے رنگ کل تلک آپ کو بھی پیارے تھے ہے گھروندہ مرا تو…
چاند نے بادل اوڑھ لیا تھا اک شب تاروں کے جھرمٹ سے چاند اتر کر چھت پر آیا ہولے سے پھر مجھ سے بولا حیراں حیراں سی آنکھوں سے آئو مجھ کو بڑھ کر چھو لو میں گھبرائی ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ شرمائی اور…
تو نے اک روز کہا تھا مجھ سے دور تجھ سے میں اگر ہو جائوں جال دنیا کا ہے رنگین و حسیں اس کے رنگوں میں اگر کھو جائوں تیری معصوم سی ان باتوں کو شوخ و سادہ سی تری یادوں کو…
بدلی بدلی سی فضا لگتی ہے ساری دنیا ہی خفا لگتی ہے دل کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا تیرے قدموں کی صدا لگتی ہے سینکڑوں چھید ہیں اس میں لیکن کتنی اچھی یہ ردا لگتی ہے چاند ہو جیسے ستاروں سے الگ…
بھول جانے کا تو بس ایک بہانہ ہو گا کہ بہر طور اسے یاد تو آنا ہو گا کوئی موسم ہو، مہکتا رہے، شاداب رہے اپنی آنکھوں کو کنول ایسا بنانا ہو گا بند مٹھی سے جو اُڑ جاتی ہے قسمت کی…
ایک چیخ ابھی تک باقی ہے تم سات سمندر پار گئے تو ایسا لگا کہ ساتوں صدیاں بیت گئیں آ آ کر موسم ملنے کے بالآخر تھک کر لوٹ گئے کچھ، لوگوں نے نشتر اگلے کچھ اپنوں نے بے حال کیا کچھ…
اس نے پوچھا ربط بہم کی کوئی صورت میں نے کہا، تم فون بھی کر سکتے ہو مجھ کو لکھنا چاہو تو خط لکھ لو وقت اگر مل جائے تو، مل لینا آ کر بولا، چھٹی لینا بھی ہے جوئے شیر کو…
اب کے پھولوں نے کڑی خود کو سزا دی ہو گی راہ گلشن کی خزائوں کو دکھا دی ہو گی جب وہ آیا تو کوئی در، کوئی کھڑکی نہ کھلی اس نے آنے میں بہت دیر لگا دی ہو گی جا! تیری…
آج پھر باد بہاراں نے مرے کانوں میں چپکے چپکے سے ترے آنے کا پوچھا مجھ سے پوچھا، سندیسہ کوئی،چٹھی کوئی آئی ہے؟ گنگناتے ہوئے جھرنوں نے ذرا تھم تھم کے پوچھا ساجن کی خبر بولو کہیں پائی ہے؟ آج پھر رت…
تمہارے بعد اس دل کا کھنڈر اچھا نہیں لگتا جہاں رونق نہیں ہوتی وہ گھر اچھا نہیں لگتا نیا اک ہمسفر چاہوں تو آسانی سے مل جائے مگر مجھ کو یہ اندازِ سفر اچھا نہیں لگتا کھلی چھت پر بھی جا کر…