تمام عمر تڑپتے رہیں کسی کے لیے اور اپنی موت بھی آئے تو بس اُسی کے لیے جوازِ ترکِ تعلق تو کچھ نہ تھا،پھر بھی بچھڑ گیا ہوں میں تجھ سے تری خوشی کے لیے کھلا یہ بھید بھی، لیکن تجھے گنوا…
تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے خدا مجھے یہ تحمل یہ حوصلہ بھی نہ دے مرے بیان صفائی کے درمیاں مت بول سنے بغیر مجھے اپنا فیصلہ بھی نہ دے یہ عمر میں نے ترے نام بے طلب لکھ…
نہ خط لکھوں نہ زبانی کلام تجھ سے رہے خاموشیوں کا یہی انتقام تجھ سے رہے رہے بس اتنا شناسائی کا بھرم باقی اشارتاً ہی دعا و سلام تجھ سے رہے نہ عہدِ ترکِ تعلق، نہ قربتیں پیہم بس ایک ربطِ مسلسل،…
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں، مرے دل سے بوجھ اتار دو میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال وخد مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو، مرے سارے…
معلوم نہ تھا ہم کو ستائے گا بہت وہ بچھڑے گا تو پھر یاد بھی آئے گا بہت وہ اب جس کی رفاقت میں بہت خندہ بہ لب ہیں اس بار ملے گا تو رُلائے گا بہت وہ چھوڑ آئے گا تعبیر…
کل یہ لکھتی تھیں بچھڑنا تمہیں منظور نہیں اب یہ کہتی ہے ”میرے خط مجھےواپس کردو” ذکر، پیروں میں چھنکتی ہوئی زنجیر کا ہے عذر، بیمارئی دل، گردشِ تقدیر کا ہے فکر، خوابوں کی بگڑتی ہوئی تعبیر کا خوف گذرے ہوئے دن…
لو، خدا حافظ تمہیں کہنے کی ساعت آ گئی دل کو تھا جس بات کا دھڑکا وہ نوبت آ گئی ٹوٹ کر برسی گھٹا تجھ سے جُدا ہوتے ہوئے آسماں رونے لگا بادل کو غیرت آ گئی اتفاقاً جب کوئی تیرے حوالے…
لب پہ نہ لائے دل کی کوئی بات اُسے سمجھا دینا میں تو مرد ہوں اور وہ عورت ذات اُسے سمجھا دینا سکھیاں باتوں باتوں میں ‘احوال’ یقیناً پوچھیں گی کرے نہ کوئی اسی ویسی بات اسے سمجھا دینا چلتے پھرتے باتیں…
اک روز کوئی تو سوچے گا اک روز کوئی تو سوچے گا فرزانوں کی اس بستی میں اک شخص تھا پاگل پاگل سا پر باتیں ٹھیک ہی کہتا تھا بارش کی طرح پر شور نہ تھا دریا کی طرح چپ رہتا تھا…
ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں کہانی میری خود میں گُم رہنا تو عادت ہے پرانی میری بھیڑ میں بھی تمہیں مل جائوں گا آسانی سے کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری میں نے اک بار کہا تھا کہ بہت پیاسا…
بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی سہے ہیں اس کے لیے یہ عذاب میں نے بھی جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی دیے بجھا کے سرِشام سو گیا…
بس میں اس سے اتنا کہتا دیکھو میری چاند سی گڑیا! ہر دم ہر پل تم خوش رہنا تنہائی کے دُکھ مت سہنا اور اگر ایسی مشکل ہو چُپ مت رہنا مجھ سے کہنا ہاں میں تمہارے دکھ کا مداوا کر سکتا…
بند دریچے سونی گلیاں ان دیکھے انجانے لوگ کس نگری میں آ نکلے ہیں ساجد ہم دیوانے لوگ ایک ہم ہی ناواقف ٹھرے روپ نگر کی گلیوں سے بھیس بدل کر ملنے والے سب جانے پہچانے لوگ دن کو رات کہیں سو…
بالآخر یہ حسیں منظر مٹا دینا ہی پڑتا ہے کسی کے سر کو شانے سے ہٹا دینا ہی پڑتا ہے کسی دیر آشنا کو جھوٹے سچے کچھ حوالوں سے تعارف کے لیے سب سے ملا دینا ہی پڑتا ہے جو سانسوں میں…
رات کچھ یارِ طرحدار بہت یاد آئے وہ گلی کوچے، وہ بازار بہت یاد آئے جن کے ہونے کی تسلی سے خوشی ہوتی تھی درد چمکا تو وہ غمخوار بہت یاد آئے شامِ فرقت میں چمکتی ہوئی صبحوں کی طرح اپنے گھر…
اک بار مجھے آواز تو دے ترے لمس کی خوشبو پہنوں گا ترے درد کو ہار بنائوں گا اک بار مجھے آواز تو دے میں صدیوں پار سے آئوں گا ابھی کاغذ پر میں لکھتا ہوں بے صَوت ہے میرا شہرِ سخن…
آنے والی تھی خزاں، میدان خالی کر دیا کل ہوائے شب نے سارا لان خالی کر دیا ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے دیکھ، تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا دشمنوں نے شست باندھی خیمئہ امید پر…
عجب حالات تھے میرے عجب دن رات تھے میرے مگر میں مطمئن تھا اس لیے تم ساتھ تھے میرے مرے زر کے طلبگاروں کی نظریں ایسے اٹھتی تھیں کہ لاکھوں انگلیاں تھیں اور ہزاروں ہاتھ تھے میرے میں اک پتھر کا گرد…
خدا جانے تمہارے ذہن میں کیا ہے؟ مرے بارے میں تم کیا سوچتی ہو کہہ نہیں سکتا مگر میں اسلئے ملنے سے کتراتا ہوں تم سے کہ وہ باتیں جو ہم لکھتےہیں اپنےخط میں چاہت سے وہ باتیں اور باتیں ہیں وہ…
اب آنے والی ہے فصلِ بہار، سوچتے تھے ہم اس طرح تو بہت اعتبار سوچتے تھے جگائے رکھتی تھی راتوں کو کیسی بے چینی کسی کی بات پہ ہم کتنی بار سوچتے تھے وہ سامنے ہے تو پھر کچھ بھی کہہ نہیں…
واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے اک اشک نکل آیا ہے یوں دیدہ تر سے جس طرح جنازہ کوئی نکلے بھرے گھر سے رگ رگ میں عوض خون کے مے دوڑ رہی…
جب وہ پشیماں نظر آئے ہیں موت کے سامان نظر آئے ہیں ہو نہ ہو اب آ گئی منزل قریب راستے سنسان نظر آئے ہیں عشق میں سہمے ہوئے دو آتشانہ مدتوں انجان نظر آئے ہیں کھا نہ سکے زندگی بھر جو…
جبیں عشق میں آسرا دینے والے مجھے بھیڑ میں راستہ دینے والے کرم جبرِ حالات کا ہے یہ ورنہ بڑے باوفا تھے دغا دینے والے مری طرح دو دن تو جی کے دکھائیں مری مے کشی کو ہوا دینے والے اب اک…
جھنجھلائےہیں، لجائےہیں پھر مسکرائے ہیں کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں ہم آج میکدے کی ہوا کھانے آئے ہیں اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں دنیا سمجھ رہی…