گُلوں میں حُسن، شگوفوں میں بانکپن ہو گا وہ وقت دور نہیں جب چمن چمن ہو گا جہاں پہ آج بگولوں کا رقص جاری ہے وہیں پہ سائیہ شمشاد ونسترن ہو گا فضائیں زرد لبادے اُتار پھینکیں گی عروسِ وقت کا زرکار…
چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا قربِ منزل کے لیے مر جانا ہم بھی کیا سادہ نظر رکھتے تھے سنگ ریزوں کو جواہر جانا مشعلِ درد جو روشن دیکھی خانئہ دل کو منور جانا رشتئہ ٹم کو رگِ جاں سمجھے رخمِ…
رعنائی نگاہ کو قالب میں ڈھالیے پتھر کے پیرہن سے سراپا نکالیے گزرا ہے دل سے جو رمِ آہُو سا اک خیال لازم ہے، اس کے پائوں میں زنجیر ڈالیے دل میں پرائے درد کی اک ٹیس بھی نہیں تخلیق کی لگن…
May 8, 2012Comments Off on رعنائی نگاہ کو قالب میں ڈھالیےRead More
وہ سامنے تھا پھر بھی کہاں سامنا ہوا رہتا ہے اپنے نور میں سورج چھپا ہوا اے روشنی کی لہر، کبھی تو پلٹ کے آ تجھ کو بُلا رہا ہے دریچہ کھلا ہوا سیراب کس طرح ہو زمیں دور دور کی ساحل…
آگ کے درمیان سے نکلا میں بھی کس امتحان سے نکلا پھر ہوا سے سُلگ اٹھے پتے پھر دھواں گلستان سے نکلا جب بھی نکلا ستارئہ اُمید کہر کے درمیان سے نکلا چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں کوئی سایہ مکان سے نکلا…
اُتر گیا تنِِ نازک سے پتیوں کا لباس کسی کے ہاتھ نہ آئی مگر گلاب کی باس اب اپنے جسم کے سائے میں تھک کے بیٹھ رہو کہیں درخت نہیں راستے میں، دور نہ پاس ہزار رنگ کی ظلمت میں لے گئی…
اتریں عجیب روشنیاں، رات خواب میں کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں پانی نہیں کہ اپنے ہی چہرے کو دیکھ لوں…
کیا کہیے کہ اب اُس کی صدا تک نہیں آتی اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی شاید ہی کوئی آ سکے اس موڑ سے آگے اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی وہ گُل نہ رہے، نکہتِ گُل…
عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں سر پٹک کر درِِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا ہے دریچہ، نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں عہدوپیماں وفا، پیار کے نازک بندھن توڑ دیتی ہے…
دل لگانا نہ دل لگی کرنا تم زمانے کی پیروی کرنا شام کے بعد پر ہجوم یادوں سے بجھتے دل سے ،ہم کو ہے روشنی کرنا درد پھر ہجرتیں نہیں کرتا دیکھنا تم نہ عاشقی کرنا لفظ سارے میری اساس بنے یوں…
خواب سارے بکھر گئے وہ جو رات تھی وہ ڈھل چکی جو شام تھی وہ اُتر چکی اب اندھیرا مرے نصیب کا وہ اُجالا صبحِ قریب کا وہ کیا ہوا؟ کہاں کھو گیا؟ اب گئے دنوں کا خمار ہے وہی آس ہے…
وفا کو ڈھونڈنے نکلو، تو مجھ کو پائو گے تیری تلاش میں ، میں تم سے بہت دور ہوا اب شام ہو چکی وہ جو تیرا نصیب تھا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدل گیا تیری چاہ میں جو جل گیا وہ جی اُٹھا بس۔۔۔۔۔۔۔۔…
آخری رات بس عذاب ہوتی ہے ہزار ہا برس سے طویل اک رات! کہیں حسین سے رشتے کا دائمی بندھن اک رات! کہیں پر موت کی دھیرے دھیرے آہٹ اک رات! رات کی بات کا انداز نرالہ ہی رہا آج پھر میں…
دل اُداس رہتا ہے بارشوں کے موسم میں بن تمہارے اب جاناں آسماں برستا ہے لوگ ساتھ ہوتے ہیں پیار کے جزیرے میں میں بہت اکیلا ہوں اتنی چھوٹی دنیا میں میری زندگی تجھ پر سرد سے علاقوں میں فاصلوں کی بندش…
کاش کبھی تو ایسا ہو کہ میرے جسم سے لپٹی کوئی حسیں لڑکی مری زباں میں کہے بہت محبت ہے تم سے مجھے یا کبھی ایسا ہو کوئی فون ہی کرے مجھ کو یا سرِ راہ دور سے ہی چلائے پر پرائے…
جب میری آنکھ سے ٹوٹا ہوا تارہ دیکھا چشمِ حیراں سے شہر نے یہ نظارا دیکھا چاندنی لوٹ گئی مایوس اندھیرے گھر سے آج پھر اس نے بہارِ صبح کا تارہ دیکھا ہوش آیا تو میرے خواب سبھی ٹوٹ گئے دور ہی…
ابھی کچھ دن لگیں لگے راستوں کو بھول جانے میں دلِ ناکام سے ساری وفائیں خود مٹانے میں ابھی تو رات کی سیاہ کاری ہے چاند تارے سفر میں ہمراہ ہیں یہ تیرا غم ہے یا محبت ہے ہم تو بس دائروں…
آج کے بعد میرے گھر میں کبھی شام نہیں آئی گی آج کے بعد ہوا کوئی پیغام نہیں لائے گی نہ تمہاری یاد مجھے رات بھر رلائے گی آج سے پہلے عجب جانکنی میں عمر گزری ہے تیرے خیال سے کٹ گیا…
ہجر راتوں کے زمانے آئے اب میرے ہوش ٹھکانے آئے لبِ دریا کھڑا یہ سوچتا ہوں کاش تو پیاس بجھانے آئے پہلے خواہش سی بدن میں جاگے پھر تیری یاد ستانے آئے لوگ کہتے ہیں شیخ جی تم کو رشتے ناظے نہ…
اس بُتکدے میں تُوجوحسیں تر لگا مجھے اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند مٹھی میں اپنی، بند سمندر لگا مجھے مرجھا گیا جو دل میں اُجالے کا سرخ پھول تاروں…
خاموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے ستارے مشعلیں لیکر مجھےبھی ڈھونڈنے نکلیں میں رستہ بھول جائوں،جنگلوں میںشام ہوجائے میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں خود اپنی چاپ…
پھر سن رہا تھا گزرے زمانے کی چاپ کو بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس, میں اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہو…
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا ہی نہیں اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت نہ جانے رُت کا تصرف تھا یا…