میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں صحرا کی بود و باش ہے اچھی…
جہاں تلک یہ صحرا دکھائی دیتا ہے مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے نہ اتنی تیز چلے، سرپھری ہوا سے کہو شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا انہیں تو دن کا…
کنارے آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی گماں گزرتا ہے، یہ شخص دوسرا ہے کوئی ہوا نے توڑ کے پتا زمیں پہ پھینکا ہے کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا…
خزاںکےچاندنے پوچھایہ جھک کےکھڑکی میں کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں؟ یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے گزر ہوا ہے مرا کس اُجاڑ بستی میں؟ جھکی چٹان، پھسلتی گرفت ، جھولتا جسم میں اب گرا ہی گرا تنگ…
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچہ تھا مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا قریب تر رہا تھا بطوں کا اک جوڑا میں آبِ…
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اُگلنے لگی اسی لیے تو ہوا رو پڑی درختوں میں ابھی میں کِھل نہ سکا تھا کہ رُت بدلنے لگی اُتر کے نائو سے بھی کب سفر تمام…
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے، پسِ دیوار گرے ایسی دہشت تھی فضائوں میں کھلے پانی کی آنکھ جھپکی بھی نہیں، ہاتھ سے پتوار گرے مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی…
ہر قدم پر نت نئےسانچےمیںڈھل جاتے ہیں لوگ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ کسلیے کیجیے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ کتنے سادہ دل ہیں، اب بھی سن کے آواز…
ازل سے ایک عذاب قبول و رد میں ہوں کبھی خدا تو کبھی ناخدا کی زد میں ہوں خدا نہیں ہوں مگر زندہ ہوں خدا کی طرح میں اک اکائی کے مانند ہر عدد میں ہوں میں اپنا آپ ہی خالق ہوں…
جو آگ نہ تھی ازل کے بس میں وہ آگ ہے میری دسترس میں قدرت سے نبرد آزما ہوں ہر چند ہوں جسم کے قفس میں میں آج ہوں، کل نہیں ہوں لیکن صدیاں ہیں مرے نفس نفس میں وہ لفظ ہوں…
جب تک زمیں پہ رینگتے سائے رہیں گے ہم سورج کا بوجھ سر پر اٹھائے رہیں گے ہم کھل کر برس ہی جائیں کہ ٹھنڈی ہو دل کی آگ کب تک خلا میں پائوں جمائے رہیں گے ہم جھانکے گا آئینوں سے…
اپنا انداز جنوں سب سے جُدا رکھتا ہوں میں چاک دل، چاک گریباں سے سوا رکھتا ہوں میں غزنوی ہوں اور گرفتار خم زلف ایاز بت شکن ہوں اور دل میں بت کدہ رکھتا ہوں میں ہے خود اپنی آگ سے ہر…
آج کی شب بھی ہو ممکن جاگتے رہنا کوئی نہیں ہے جان کا ضامن جاگتے رہنا قزاقوں کے دشت میں جب تک قافلہ ٹھہرے قافلے والو، رات ہو یا دن، جاگتے رہنا تاریکی میں لپٹی ہوئی پر ہول خاموشی اس عالم میں…
کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے اک دن نکل نہ جائوں ذرا اپنے آپ سے جسکی مجھے تلاش تھی، وہ تو مجھ ہی میں تھا کیوں آج تک میں دور رہا اپنے آپ سے دنیا نے تجھ کو میرا…
ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے سجا رکھا ہے گھر سارا تُو شاید لوٹ کر آئے بجز خاموشیوں تنہائیوں کے کچھ نہیں باقی نظر پھر بھی ہے آوارہ تُو شاید لوٹ کر آئے مسافر لوٹ کر آتے نہیں…
اداس راتیں ہیں خواب سارے اجڑ چکے ہیں ہے آنکھ ویراں کہ سب نظارے اجڑ چکے ہیں مری زمیں پہ گلوں کے چہرے جھلس گئے ہیں مرے فلک کے وہ چاند تارے اجڑ چکے ہیں جو میرے آنسو شمار کرتے جو پیار…
ظلمتوں میں ازسرِ نو کیوں بلاتے ہو مجھے مہربانوں کس لیے اتنا ستاتے ہو مجھے راستے میں نے دکھائے ہیں اجالوں کے تمہیں نقش ہوں میں روشنی کا کیوں مٹاتے ہو مجھے قافلوں کو منزلوں کی سمت کرتا ہوں رواں بے جہت…
راستے میرے قدموں سے لپٹے رہے تیرے کوچے کا منظر ہچکتا رہا تیری تنہائیاں بھی بلاتی رہیں تیرے شہرِ وفا سے نکل ہی گیا میں اندھیرے کے ٹھنڈے سفر کی طرح اب تمازت سے احساس جلنے لگا درد سا بھر گیا ہے…
مرے ندیم، مرے ہم نفس، مرے ہمدم میں تیرے درد کی تفسیر کس طرح لکھوں میں تیرے شہر کو زندان یا قفس لکھوں تری خاموشیوں کو درد یا گھٹن لکھوں یہ شہر جس کی پناہوں میں تیرا مسکن ہے یہاں تو کوئی…
دور اک گائوں میں چاند کی چھائوں میں سبز کھیتوں کے دامن میں دو دل ملے عہد و پیماں ہوئے اور گجرے بندھے چاند چمکتا رہا مسکراتا رہا پھر چلی ایک آندھی بڑے زور کی اور کھیتوں کی ہریالی مرجھا گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔…
یہ زندگی تو موت سے ابتر لگے مجھے تیرے بغیر کانٹوں کا بستر لگے مجھے دیوار و در کے ساتھ دیچے بھی ہیں مگر ہر شخص تیرے شہر کا بے گھر لگے مجھے پھینکے جو تو نے پھول کسی کے خیال میں…
اس سے پہلے کہ آنسو مقدر بنیں اس سے پہلے کہ کوئی ستم توڑ دے آ اسی موڑ پہ مسکراتے ہوئے میں تجھے چھوڑ دوں تو مجھے چھوڑ دے اس سے پہلے کہ ویران ہو زندگی اس سے پہلے کہ آہیں بنیں…
دو گام گر چلو گے کسی اجنبی کے ساتھ الزام بھی ملے گا تمہیں دوستی کے ساتھ پہرے لگا کے عشق پہ رختِ سفر دیا تھا یہ بھی اک مذاق مری رہروی کے ساتھ واعظ کو میری طرزِ عبادت پہ اعتراض شرطیں…
ذرا سی دیر کو تری گلی کے موڑ پہ اسی شجر کے سائے میں کہ جس کی ایک شاخ پہ کھلا تھا گل بہار کا اور اس میں رنگ تھے کئی تری نظر کو بھا گیا نجانے کیسے گل وہی میں لے…