محبتوں کے نصاب جیسا وہ ایک چہرہ کتاب جیسا مہکتا ہے میرے قلب و جاں میں وہ شخص کھلتے گلاب جیسا یقیں بھی ہے وہ میرے دل کا گُمان بھی ہے سراب جیسا میں سوچوں اس کو تو ٹوٹ جائے خیالِ نازک…
کیوں بلندی پا کے ہستی میں اتر جاتا ہوں میں کس لیے احساس کی حد سے گزر جاتا ہوں میں ڈوب جائے گی تو اپنے آنسوئوں میں سوچ لے چھوڑ کے اے زندگی تجھ کو اگر جاتا ہوں میں زخم بے انداز…
آج روئے ہیں تنہا بڑی دیر تک کل ان آنکھوں میں پانی رہے نہ رہے کیا خبر آپ لوٹیں تو میں نہ رہوں میرے غم کی کہانی رہے نہ رہے وقت تو ایک رت ہے بدل جائیگا آج کا دن نہ پھر…
وقتِ رخصت تیری چشمِ تر یاد ہے کیسے میرا کٹا پھر سفر یاد ہے خشک ہونٹوں پہ زخمی تبسم لیے بھیگی بھیگی سی تیری نظر یاد ہے چھوڑ آئے تھے مجبور ہو کر جسے تیری بستی ہمیں وہ نگر یاد ہے کوئی…
تری چوکھٹ پہ سر رکھ کےجو مر جاتے تو اچھا تھا ہم اپنے پیار میں حد سے گزر جاتے تو اچھا تھا بچھڑنے سے ذرا پہلے بہک جاتا جنوں میرا مرے پہلو میں وہ گیسو بکھر جاتے تو اچھا تھا ہمیں رسموں…
تم نہ جانے اسکو بھی کیوں بے اثر لکھتےرہے ہم کہانی پیار کی جو عمر بھر لکھتے رہے اپنے کاندھے پہ رکھے اغیار کی فکر و نظر زندگی کی بھول کو اپنا سفر لکھتے رہے بے ضمیری بے اصولی بیچ کر افکار…
اس کو بانہوں میں چھپا کر پیار کی باتیں کروں بند ہونٹوں پہ سجے اقرار کی باتیں کروں جس کی آنکھ میں ستارے اور ہونٹوں پہ گلاب وہ مجھے محبوب ہے اس یار کی باتیں کروں روز و شب بس ایک میری…
او دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یاران وطن! کیا اب بھی وہی دو شنبے کو راشن کےذخیرے کھلتے ہیں مٹی کے مرکب، گندم کیا سونے کے برابر تلتے ہیں دوچٹکی چاول کیخاطرچھ چھ دن رلتےگھلتےہیں پتلے’فضل الدینانِ وطن’…
ہم ‘نیوٹرل’ ہیں خارجہ حکمت کے باب میں ”نہ ہاتھ باگ پر ہیں نہ پا ہیں رکاب میں” یوں کانپتا ہے شیخ خیالِ شراب سے جیسے کبھی یہ ڈوب گیا تھا شراب میں اس بات پر بھی ہم نے کئی باب لکھ…
آگ جب تک جلے نہ جانوں میں آنچ ڈھلتی نہیں ترانوں میں وعدہ یار جاں فزا ہے مگر پھول کھلتے نہیں چٹانوں میں خواب کے نرم تار کیا ٹوٹے تیر بھی مڑ گئے کمانوں میں آدمی بھی تو کیڑیوں کی طرح بٹ…
لکڑی کی “نصف ہٹ” میں بسیرا ہے آج کل فدوی بشیر نہیں ہے “بیٹرا” ہے آج کل دو”کمریاں ” کہ عرض ہے جن میں نہ طول ہے جینا اگر یہی ہے تو مرنا فضول ہے جو چیز جس جگہ تھی ضروری وہیں…
ٹین کے چھجوں سے دو کمرے ” بنگلائے” ہوئے جیسے انڈوں پر ہوں پر مرغی نے پھیلائے ہوئے اک کھلا در ہے جو کھلتا ہے کھلے میدان میں گھر میں بھی رہتا ہوں پوری قوم کے گھمسان میں پرد ئہ دیوار تا…
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے کس طرح گزران ہو گی اب ”سپر اقوام”سے مانگتی ہیں دام بھی وہ ”بند ئہ بے دام”سے گھوڑے نکلے، اونٹ نکلے ،…
واد ئی کشمیر کے جانباز فرزندو سلام جہد حق میں اے خدا کے منتخب بندو سلام سبز دھانوں کو دعا، کیسر چناروں کو سلام زندگی کے خوبصورت شالاماروں کو سلام شب فروشوں سے یہ صبح ایشیا کی جنگ ہے یہ فرات عصر…
مے خانہ تو ہے ایک مگر جام بہت ہیں اے جلوئہ جانا ترے نام بہت ہیں کانٹوں سے زیادہ رہی پھولوں پہ توجہ شبنم پہ طرف داروں کے الزام بہت ہیں شہروں کی خصوصی پھبن انعام ہے ان کا وہ لوگ گلی…
جناب والا کہ یہ سات منزلہ صندوق؟ کسی مکان کے لیے ھے کہ لا مکان کے لیے؟ جناب اس کا اگر ایک پٹ اکھیڑ سکیں تو کام آئے محّلے میں سائباں کے لیے جناب نے جو گھڑایا ھے اس زمانے میں کبھی…
حکیم الامت شاعر مشرق مفکر پاکستان ڈاکٹر شیخ محمد اقبال 9نومبر 1877ء کو سیالکوٹ سے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے علامہ اقبال کے والد کا نام شیخ نور محمد اور والدہ کا نام امام بی بی تھا۔علامہ اقبال کے ایک بھائی…
زندگی ھے مختلف جزبوں کی ہمواری کا نام آدمی ہے شلجم اور گاجر کی ترکاری کا نام] علم الماری کا مکتب چار دیواری کا نام ملٹن اک لٹھا ھے مومن خان پنساری کا نام اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے نجد…
نعرہ زندہ باد کا سر ھو گیا کام اپنا بندہ پرور ھو گیا جو کمیٹی کا بھی ممبر ھو گیا وہ بھی تقریبا منسٹر ھو گیا اک ذرا افسر نے مونچھیں چھوڑ دیں محکمہ سارا مچھندر ھو گیا اس کی اردو میں…
مجھ سے مت کر یارکچھ گفتار میں روزے سے ہوں ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار میں روزے سے ہوں ہر کسی سے کرب کا اظہار میں روزے سے ہوں دو کسی اخبار کو یہ تار میں روزے سے ہوں میرا…
ہر قدم کی اپنی اپنی چال ہے آدمی لڑھکا ہوا فٹ بال ہے خستہ و برگشتہ و بد حال ہے یہ ھماری پیاری اصغر مال ہے چہرہ بنگلوں کا بظاہر لال ہے بیچ سے دیکھو تو پتلا حال ہے اپنے اپنے مچھروں…
اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی خدا جانےگریباں کس کے ہیں اورہاتھ کس کے ہیں اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی مری خواہش ہے دنیا کو بھی اپنے ساتھ…
موج کا منجدھار سے رشتہ ہے کیا نائو کا پتوار سے رشتہ ہے کیا اپنے اندر کے گرفتاروں سے پوچھ روزنِ دیوار سے رشتہ ہے کیا کوئی بھی لمحہ کبھی رکتا نہیں وقت کا رفتار سے رشتہ ہے کیا چھائوں میں بیٹھے…
اتر چکے ہو سمندر میں حوصلہ رکھنا ہوا چلے نہ چلے بادباں کھلا رکھنا کبھی نہ جلتے چراغوں کا سلسلہ ٹوٹے جو ایک بجھنے لگے ساتھ دوسرا رکھنا یہی کمال ہے بارش میں بھیگتے رہنا اور اپنے جسم کی مٹی کو بھی…