جو رستہ چن لیا اس کو بدلنا کیوں نہیں آیا مجھے اوروں کے نقش پا پہ چلنا کیوں نہیں آیا مرےجذبوںکی حدت اسکےدل تک ہی نہیںپہنچی مری کرنوں کو بادل سے نکلنا کیوں نہیں آیا ذرا سا لڑکھڑا کر گر پڑا میں…
زمیں مدار سے اپنے اگر نکل جائے نجانے کونسا منظر کدھر نکل جائے اب آفتاب سوا نیزے پر اترنا ہے گرفت شب سے ذرا یہ سحر نکل جائے ثمر گرا کے بھی آندھی کی خو نہیں بدلی یہی نہ ہو کہ جڑوں…
جو بھی ممکن تھا وہ زیرِ التوا رکھنا پڑا آنے جانے کے لیے اک سلسلہ رکھنا پڑا زندگی بھر کی مسافت رائیگاں ہونے کو تھی منزلوں سے باندھ کر ہر راستہ رکھنا پڑا لوگ کب تیار تھے بیدار ہونے کے لیے ہر…
رات بھر کوئی نہ دروازہ کھلا دستکیں دیتی رہی پاگل ہوا وقت بھی پہچان سے منکر رہا دھند میں لپٹا رہا یہ آئینہ کوئی بھی خواہش نہ پوری ہو سکی راستے میں لٹ گیا یہ قافلہ وہ پرندہ ہوں جسے ہوتے ہی…
دوستوں کے ہوبہو پیکر کا اندازہ لگا ایک پتھر کے بدن پر کانچ کا چہرہ لگا دیکھنے والی نگاہوں میں اگر تضحیک ہے کون کہتا تھا بھرے بازار میں میلہ لگا خواہشوں کے پیڑ سے گرتے ہوئے پتے نہ چُن زندگی کے…
مرے نصیب کا روشن ستارہ ملنے تک یہ نائو ڈوب نہ جانے کنارہ ملنے تک ہوا کریدتی پھرتی ہے سارے ملبے کو بکھرتی راکھ سے کوئی شرارہ ملنے تک ہر ایک رُت نے کیا انتظار تیرے لیے ہر ایک شاخ نے تجھ…
موت جب آئی تو گھر میں جاگتا کوئی نہ تھا بے حسی کا اس سے بڑھ کر واقعہ کوئی نہ تھا کوئی بھی چارہ نہیں تھا آگے جانے کے سوا جب بھی مڑ کر دیکھتے تھے راستہ کوئی نہ تھا مجھ کو…
دور دور تک کوئی جب نظر نہیں آتا آنکھ کا پرندہ بھی لوٹ کر نہیں آتا موت بھی کنارہ ہے وقت کے سمندر کا اور یہ کنارہ کیوں عمر بھر نہیں آتا خواہشیں کٹہرے میں چیختی ہی رہتی ہیں فیصلہ سنانے کو…
یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ اک سمندر پار کرنا ہے اسی کشتی کے ساتھ عمر یونہی تو نہیں کٹتی بگولوں کی طرح خاک اڑنے کے لیے مجبور ہے آندھی کے ساتھ جانے کس اُمید پر ہوں آبیاری…
جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا لوگوں کا اک ہجوم ادھر ٹوٹ کر گرا ایسی شدید جنگ ہوئی اپنے آپ سے قدموں پہ آ کے اپنا ہی سر ٹوٹ کر گرا ہاتھوں کی لرزشوں سے مجھے اس طرح لگا…
ہم نے دل سے محبت کو رخصت کیا اور بارود کی دھڑکنوں کے سہارے جیے خود کو نفرت کے چشموں سے سیراب کرتے رہے ایک شعلہ بنے تاکہ آرامگاہوں میں پلتے ہوئے بے حسوں کی حفاظت رہے خواب گاہوں میں پردے لٹکتے…
ستمبر کی یاد میں اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آ گئی تھی اُس نے پوچھا ”افتخار! یہ تم نظمیں ادھوری کیوں چھوڑ دیتے ہو” اب اُسے کون بتاتا کہ ادھوری نظمیں…
رات کے دوسرے کنارے پر جانے کیا بات ہے کہ شام ڈھلے خوف نادیدہ کے اشارے جھلملاتے ہوئے چراغ کی لَو مجھ سے کہتی ہے”افتخار عارف” رات کے دوسرے کنارے پر ”ایک رات اور انتظار میں ہے” کوئی چُپکے سے دل میں…
ایک رات کی کہانی قصہ شب دو مہتاب زندگی کا اک عجیب باب اک طرف حجابِ رنگ و نور اک طرف جمالِ بے حجاب آنکھ جب کھلی تو صبح دم حجرہِ ہوس کے فرش پر اِک دیا بُجھا ہوا ملا اِک نظر…
خوشگوار موسم میں ان گنت تماشائی اپنی اپنی ٹیموں کو داد دینے آتے ہیں اپنے اپنے پیاروں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں میں الگ تھلگ سب سے بارہویں کھلاڑی کو ہوٹ کرتا رہتا ہوں کیا عجب کھلاڑی ہے کھیل ہوتا رہتا ہے شور…
وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا اک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا اک عالمِ خوبی ہے میسر مگر اے کاش اس گلی کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا اس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر اک حلقہ…
سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے…
جہاں بھی رہنا یہی اک خیال رکھنا زمیں فردا پہ سنگِ بنیاد حل رکھنا حضور اہلِ کمال فن سجدہ زیر رہنا گناہ میں طرہ کلاہ کمال رکھنا وہ جس نے بخشی ہے بے نوائوں کو نعمتِ حرف وہی سکھا دے گا حرف…
قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تہے کہاں تک دل کی چنگاری، ترے شعلے گئے تہے فصیلِ شہر لبِ بستہ ! گواہی دے کہ لوگ دہانِ حلقہِ زنجیر سے بولے گئے لوگ تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں…
کھوئے ہوئے اک موسم کی یاد میں سمائے میری آنکھوں میں خواب جیسے دن وہ مہتاب سی راتیں گلاب جیسے دن وہ گنج شہر وفا میں سحاب جیسے دن وہ دن کہ جن کا تصّور متاع قریہ دل وہ دن کہ جن…
مرے خدا مرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو اسی شکستہ و بستہ زباں میں ظاہر ہو زمانہ دیکھے میرے حرف بازیاب کے رنگ گل مراد ہنر دشت جاں میں ظاھر ھو میں سخرو نظر آں کلام ہوں کہ سکوت تری عطا…
گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا وہ کیا منزل جہاں راستے آگے نکل جائیں…
ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں سروں کی فصل جب سے اُتری تھی تب سے واقف ہیں کبھی چھپے ہوئے خنجر، کبھی کھچی ہوئی تیغ سپاہِ ظلم کہ ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں ہے رات یوں ہی…
سمندر پار ہوتی جا رہی ہے دُعا، پتوار ہوتی جا رہی ہے دریچے اب کُھلے ملنے لگے ہیں فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے کئی دن سے مرے اندر کی مسجد خدا بیزار ہوتی جا رہی ہے مسائل، جنگ، خوشبو، رنگ، موسم…