متاع شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے بجھے چراغ ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے بچھڑ کے تجھ سے چلے ہم تو اب کے یوں بھی ہوا کہ تیری یاد کہیں راستوں میں چھوڑ آئے ہم اپنی دربدری کے مشاہدے اکثر نصیحتوں…
معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہو گا تیرے دریا پہ مری پیاس کا پہرہ ہو گا اس کی آنکھیں تیرے چہرے پہ بہت بولتی ہیں اس نے پلکوں سے ترا جسم تراشا ہو گا کتنے جگنو اسی خواہش میں…
میں دل پہ جبر کروں گا، تجھے بھلا دوں گا مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو؟ میں تیرے شہر کے سارے دیے بجھا دوں گا ہوا کا ہاتھ بٹائوں…
کھنڈر آنکھوں میں غم آباد کرنا کبھی فُرصت ملے تو یاد کرنا اذیت کی ہوس بجھنے لگی ہے کوئی تازہ ستم ایجاد کرنا کئی صدیاں پگھلنے کا عمل ہے بدن سے روح کو آزاد کرنا ابھی کیسی پرستش بجلیوں کی؟ ابھی گھر…
خلوت میں کھلا ہم پہ کہ بیباک تھی وہ بھی محتاط تھے ہم لوگ بھی، چالاک تھی وہ بھی افکار میں ہم لوگ بھی ٹھہرے تھے قد آور! پندار میں ” ہم قامتِ افلاک ” تھی وہ بھی اسے پاسِ ادب، سنگ…
کاش ہم کھل کے زندگی کرتے! عمر گزری ہے خودکشی کرتے!! بجلیاں اس طرف نہیں آئیں ورنہ ہم گھر میں روشنی کرتے کون دشمن تری طرح کا تھا؟ اور ہم کس سے دوستی کرتے؟ بجھ گئے کتنے چاند سے چہرے دل کے…
کڑے سفر میں اگر راستہ بدلنا تھا تو ابتدا میں مرے ساتھ ہی نہ چلنا تھا کچھ اس لیے بھی تو سورج زمیں پر اترا ہے پہاڑیوں پہ جمی برف کو پگھلنا تھا اتر کے دل میں لہو زہر کر گیا آخر…
وہ لڑکی بھی ایک عجیب پہیلی تھی پیاسے ہونٹ تھے آنکھ سمندر جیسی تھی سورج اس کو دیکھ کے پیلا پڑتا تھا وہ سرما کی دھوپ میں دھل کر نکلی تھی اس کو اپنے سائے سے ڈر لگتا تھا سوچ کے صحرا…
وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری! میرے دشمن میرے لفظوں کے بھکاری نکلے اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ جیسے…
شامل مرا دشمن صفِ یاراں میں رہے گا یہ تیر بھی پیوست رگِ جاں میں رہے گا اک رسمِ جنوں اپنے مقدر میں رہے گی اک چاک سدا اپنے گریباں میں رہے گا اک اشک ہےآنکھوںمیںسوچمکے گا کہاں تک؟ یہ چاند زد…
ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے مگر یہ جاگتا منظر بھی خواب جیسا ہے یہ تلخ تلخ سا لہجہ، یہ تیز تیز سی بات مزاجِ یار کا عالم شراب جیسا ہے مرا سخن بھی چمن در چمن شفق کی پھوار…
ہر نفس رنج کا اشارہ ہے۔۔۔۔۔۔۔! آدمی دُکھ کا استعارہ ہے ۔۔۔۔۔۔! مجھ کو اپنی حدوں میں رہنے دے میں سمندر ہوں تو کنارا ہے اجنبی! شب کو راستہ نہ بدل تو میری صبح کا ستارا ہے یا سماعت کی خود فریبی…
اتنی مدت بعد ملے ہو! کن سوچوں میں گم پھرتے ہو؟ اتنے خائف کیوں رہتے ہو؟ ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟ کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے رات گئے…
گُم صُم ہوا، آواز کا دریا تھا جو اک شخص پتھر بھی نہیں اب وہ، ستارا تھا جو اک شخص شاید وہ کوئی حرفِ دعا ڈھونڈ رہا تھا چہروں کو بڑے غور سے پڑھتا تھا جو اک شخص صحرا کی طرح دیر…
فلک پر اک ستارہ رہ گیا ہے مرا ساتھی اکیلا رہ گیا ہے یہ کہہ کر پھر پلٹ آئیں ہوائیں! شجر پر ایک پتا رہ گیا ہے ہر اک رُت میں ترا غم ہے سلامت یہ موسم ایک جیسا رہ گیا ہے…
چہرے پڑھتا، آنکھیں لکھتا رہتا ہوں میں بھی کیسی باتیں لکھتا رہتا ہوں؟ سارے جسم درختوں جیسے لگتے ہیں اور بانہوں کو شاخیں لکھتا رہتا ہوں تجھ کو خط لکھنے کے تیور بھی بھول گئے آڑی ترچھی سطریں لکھتا رہتا ہوں تیرے…
چمن میں جب بھی صبا کو گلاب پوچھتے ہیں تمہاری آنکھ کا احوال، خواب پوچھتے ہیں کہاں کہاں ہوئے روشن ہمارے بعد چراغ؟ ستارے دیدئہ تر سے حساب پوچھتے ہیں وہ تشنہ لب بھی عجب ہیں جو موجِ صحرا سے سراغِ حبس،…
چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی خوش ہوں کہ وقتِ قتل مرا رنگ سرخ تھا میرے لبوں پہ حرفِ دعا کی لکیر تھی میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے…
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے یہ ختمِ وصل کا لمحہ ہے، رائیگاں نہ سمجھ کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے کچھ اور دیر نہ جھڑنا اداسیوں…
آندھی چلی تو دھوپ کی سانسیں الٹ گئیں عریاں شجر کے جسم سے شاخیں لپٹ گئیں دیکھا جو چاندنی میں گریبانِ شب کا رنگ کرنیں پھر آسمان کی جانب پلٹ گئیں میں یاد کر رہا تھا مقدر کے حادثے! میری ہتھیلیوں پہ…
آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا میں خود ہی سرِ منزلِ شب چیخ پڑا تھا لمحوں کی فصیلیں بھی مرے گرد کھڑی تھیں میں پھر بھی تجھے شہر میں آوارہ لگا تھا تو نے جو پکارا ہے تو بول…
اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں مگر ترے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں وہ ریزہ ریزہ مرے بدن میں اتر رہا ہے میں قطرہ قطرہ اسی کی آنکھوں کو پی رہا ہوں تری ہتھیلی پہ کس نے لکھا…
مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم اک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم آنسو چھلک چھلک کے ستائیں گے رات بھر موتی پلک پلک میں پرویا کریں گے ہم جب دوریوں کی آگ دلوں کو جلائے…
پہلے تو اپنے دل کے راز جان جائیے پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے پہلے مزاج راہ گزر جان جائیے پھر گردِ راہ جو بھی کہے مان جائیے کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں میری سنیں تو دل…