پریشان رات ساری ہے ستارو تم تو سو جائو سکوتِ مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جائو ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جائو خیالوں میں ہمیں یہ رات بھاری ہے ستارو تم تو سو جائو تمہیں کیا آج بھی کوئی اگر…
یوں چُپ رہنا ٹھیک نہیں کوئی میٹھی بات کرو مور چکور پیپہا کوئل سب کو مات کرو ساون تو من بگیا سے بن برسے بیت گیا رس میں ڈوبے نغمے کی اب تم برسات کرو ہجر کی اک لمبی منزل کو جانے…
کیا ہے جسے پیار ہم نے زندگی کی طرح وہ آشنا بھی ملا ہم سے اجنبی کی طرح بڑھا کے پیاس میری اس نے ہاتھ چھوڑ دیا وہ کر رہا تھا مروت بھی دل لگی کی طرح کسے خبر تھی بڑھے گی…
جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پر کھلا کرتا ہے وہ میری تنگی داماں کا گلہ کرتا ہے دیر سے آج میرا سر ہے تیرے زانوں پر یہ وہ رتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے میں تو بیٹھا ہوں دبائے ہوئے…
اک اک پتھر جوڑ کے میں نے جو دیوار بنائی تھی جھانکوں اس کے پیچھے تو رسوائی ہی رسوائی تھی یوں لگتا ہے سوتے جاگتے اوروں کا محتاج ہوں آنکھیں میری اپنی ہیں پر ان میں نیند پرائی ہے دیکھ رہے ہیں…
ہجر کی پہلی شام کے سائے دور اُفق تک چھائے تھے ہم جب اس کے سحر سے نکلے سب راستے ساتھ لائے تھے جانے وہ کیا سوچ رہا تھا اپنے دل میں ساری رات پیار کی باتیں کرتے کرتے اس کے نین…
گرمی حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں بچ نکلتے ہیں اگر آتحِ صیاد سے ہم شعلئہ آتش گلفام سے جل جاتے ہیں خود نمائی تو نہیں شیوئہ اربابِ وفا جن کو جلنا ہو…
دل کو غمِ حیات گوارہ ہے ان دنوں پہلے جو درد تھا وہی چارہ ہے ان دنوں یہ دل ذرا سا دل تیری یادوں میں کھو گیا ذرے کو آندھیوں کا سہارا ہے ان دنوں تم آ سکو تو شب کو بڑھا…
درد سے میرا دامن بھر دے یا اللّہ پھر چاہے دیوانہ کر دے یا اللّہ میں نے تجھ سے چاند ستارے کب مانگے روشن دل بیدار نظر دے یا اللّہ سورج سی اک چیز تو ہم سب دیکھ چکے سچ مچ کی…
چراغ دل کے جلائو کہ عید کا دن ہے ترانے جھوم کے گائو کہ عید کا دن ہے غموں کو دل سے بھلائو کہ عید کا دن ہے خوشی سے بزم سجائو کہ عید کا دن ہے حضور اس کی کرو اب…
بے چین بہاروں میں کیا کیا ہے جان کی خوشبو آتی ہے جو پھول مہکتا ہے اس سے طوفان کی خوشبو آتی ہے کل رات دکھا کے خواب قریب سو سیج کو سونا چھوڑ گیا ہر سلوٹ سے پھر آج اسی مہماں…
اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں آ تجھے گنگنانا چاہتا ہوں کوئی آنسو تیرے دامن پر گر کر بوند کو موتی بنانا چاہتا ہوں تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں چھا رہا ہے…
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو میں ہوں تیرا نصیب اپنا بنا لے مجھ کو مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو میں سمندر بھی ہوںموتی بھی ہوں…
انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات میری تنہائی کی کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی وصل کی رات نہ…
وہ باخبر ہے کبھی بے خبر نہیں ہوتا ہماری بات کا جس پر اثر نہیں ہوتا مثال نکہت صبح وصال ہوتا ہے بنا ترے کوئی لمحہ بسر نہیں ہوتا چراغ ہجر مسلسل جلائے بیٹھے ہیں کبھی ہوا کا ادھر سے گزر نہیں…
یہ قسمت کے دھارے سدا ایک سے ہیں سمندر کنارے سدا ایک سے ہیں مرے دل کے اک اک ورق پر لکھا ہے یہ تیور تمہارے سدا ایک سے ہیں مقدر میں دونوں کے ہیں ہجر گھڑیاں ستارے ہمارے سدا ایک سے…
ٹھرہے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے میرے مولا میرے دریا کو روانی دے دے آج کے دن کریں تجدید وفا دھرتی سے پھر وہی صبح وہی شام سہانی دے دے تیری مٹی سے مرا بھی تو خمیر اٹھا ہے میری…
تیرے جانے کے بعد یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے گھرے ہم بھنور میں کچھ اسطرح کھلے بادباں کو ترس گئے مرے شہر کے جو چراغ تھے انہیں آندھیوں نے بجھا دیا چلی ایسی اب کے ہوائے دل کہ مکیں…
رونا بھی جو چاہیں تو وہ رونے نہیں دیتا وہ شخص تو پلکیں بھی بھگونے نہیں دیتا وہ روز رُلاتا ہے ہمیں خواب میں آ کر سونا بھی جو چاہیں تو وہ سونے نہیں دیتا یہ کس کے اشارے پہ اُمڈ آئے…
پھر نئے خواب بُنیں پھر نئی رنگت چاہیں زندہ رہنے کے لیے پھر کوئی صورت چاہیں نئے موسم میں کریں پھر سے کوئی عہدِ وفا عشق کرنے کے لیے اور بھی شدت چاہیں اک وہ ہیں کہ نظر بھر کے نہ دیکھیں…
پیار کے دن اب بیت گئے ہیں ہم ہارے وہ جیت گئے ہیں سارے موسم ایک ہوئے ہیں چھوڑ کے جب سے میت گئے ہیں لے اور سُر کی بات کریں کیا! سنگ ان کے سب گیت گئے ہیں ان کی جفائیں…
پیار کرنے والوں کا بس یہی فسانہ ہے اک دیا تو روشن ہے اک دیا جلانا ہے ان کو بھول جائیں ہم دیکھ بھی نہ پائیں ہم یہ بھی کیسے ممکن ہے ایسا کس نے مانا ہے بارشوں کے موسم میں ہم…
کوئی موسم بھی ہم کو راس نہیں وہ نہیں ہے تو کچھ بھی پاس نہیں ایک مدت سے دل کے پاس ہے وہ ایک مدت سے دل اداس نہیں جب سے دیکھا ہے شام آنکھوں میں تب سے قائم مرے حواس نہیں…
وہ جو بکھرے بکھرے تھے قافلے وہ جو دربدر کے تھے فاصلے انہی قافلوں کے غبار میں انہیں فاصلوں کے خمار میں کئی جلتے بجھے چراغ تھے نئے زخم تھے نئے داغ تھے نہ شبوں میں دل کو قرار تھا نہ دنوں…