گزر آیا میں چل کے خود پر سے اک بلا تو ٹلی مِرے سر سے مستقل بولتا ہی رہتا ہوں کتنا خاموش ہوں میں اندر سے مجھ سے اب لوگ کم ہی ملتے ہیں یوں بھی ہٹ سا گیا ہوں منظر سے…
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے رنگ موسم ہے اور بادِ صبا شہر کوچوں میں خاک اُڑاتی ہے فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں میز پر گرد جمتی جاتی ہے سوچتا ہوں کہ اس کی یاد…
ہم کہاں تھے اور تم کہاں جاناں ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں رائیگاں وصل میں بھی وقت ہوا پر ہوا خوب رائیگاں جاناں میرے اندر ہی تو کہیں گم ہے کس سے پوچھوں ترا نشان جاناں عالم بیکراں رنگ ہے تو تجھ…
ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے پائوں پھسلا تو آسمان میں تھے ہے ندامت لہو نہ رویا دل زخم دل کے کسی چٹان میں تھے میرے کتنی ہی نام اور ہمنام میرے اور میرے درمیان میں تھے میرا خود…
ہے فصلیں اُٹھا رہا مجھ میں جانے یہ کون آ رہا مجھ میں جون مجھ کو جلا وطن کر کے وہ میرے بن بھلا رہا مجھ کو مجھ سے اُس کو رہی تلاشِ اُمید سو بہت دن چھپا رہا مجھ کو تھا…
گاہے بگاہے بس اب یہی ہو کیا تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں مجھ سے مل کر اُداس بھی…
کس سے اظہارِ مدعا کیجیے آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجیے ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک آپ کیجیے تو کیا کیجیے آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں سخت بیمار ہے دعا کیجیے ایک ہی فن تو ہم نے…
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم خاموشی سے ادا ہو رسمِ دوری کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم وفا، اخلاص،…
اپنے لٹنے کے سبب تک پہنچے سلسلے عالی نسب تک پہنچے توڑ ڈالیں گے وہ طبقات کے بت بت شکن عظمتِ رب تک پہنچے چند ہاتھوں میں ہے دولت سب کی معجزہ کوئی کہ سب تک پہنچے کارخانوں کے پسے مزدورو چیخ…
محوِ نشاطِ بے کراں ارضِ محن میں آ گئے لگتا ہے شہر چھوڑ کر ہم کسی بن میں آ گئے ہجر کے لمبے سلسلے اس پہ غضب کی غیریت خوابِ بہار کے سبب اجڑے چمن میں آ گئے رکھتے ہیں کوئی اور…
چاند ستارے ڈوب رہیں گے شمعیں بھی گل ہو جائیں گی آخر کو سورج کی پریاں ہمیں ستانے آئیں گی لمبی تان کے سونے والے بیکل ہو کر جاگیں گے کوّوں کی پُر شور قطاریں کوئی سندیسہ لائیں گی وقت کی چال…
ایک خواب میں افلاک سی دیکھی اترتی حوریں ہر سمت سے آئی صدا خوش آمدید اے نازنیں دنیا کے حسنِ خوش فسوں کا راز کب کس پر کھلا اے خالقِ ارض و سما صد آفریں صد آفریں پھولوں کے رنگیں پیرہن کلیوں…
گونگے دیار سے نکل اہل سخن میں آ گئے پاٹ کے بحرِ بے رخی اپنے وطن میں آ گئے شبنمی دلبروں کے سنگ کاٹ کے سختیوں کے دشت رونقِ شوق دیکھنے کوہ ودمن میں آ گئے لذتِ نان خشک بھی دیتی ہے…
شہرِ لاہور کی شہزادی تھی اس کی چاہت بھلے میعادی تھی دام بکھرتے تھے کنول آنکھوں کے اوج پر عادتِ صیادی تھی کس قیامت کا چلن تھا اس کا خوش خرامی ستم ایجادی تھی کتنے عشاق تھے عاجز اس سے ایک آبادی…
عرصئہ مستہ و رندی کے لطائف پائے اپنی شب خیز جوانی کے معارف پائے رات دن غرق مئے ناب تعیش ہو کر دوستو بحرِ تغافل کے وظائف پائے بام پر لائی ہے کس کس کو کھنک سکوں کی چاہتا کون تھا تقدیرِ…
چلتی دیکھی تھی آب میں نائو میں نے ڈالی سراب میں نائو کون اس کو کنارے پر لایا ڈولی جب بھی حباب میں نائو موج در موج ناچتی وحشت ہے رواں کس حساب میںنائو ہو نہ ہو سامنا سفر کا ہے میں…
وطن سے دور عزیزو وطن نہیں ملتے محبتوں کے گلابی چمن نہیں ملتے کسی کو ہوتی نہیں ہے کسی سے کچھ نسبت دیارِ غیر میں سب کو کفن نہیں ملتے گھلائے رکھتی ہے لوگوں کو انکی تنہائی یہاں عزیز سرِ انجمن نہیں…
بستیاں بسا لی ہیں دور آشنائوں نے ملک گھیر رکھے ہیں قسمت آزمائوں نے کیوں نہ بھول جائیں وہ گرم سانس رشتوں کو جن کو کھینچ رکھا ہو سرد آبنائوں نے راہ تکتی آنکھیں بھی بند ہونے والی ہیں چٹھیوں میں لکھا…
کون پہنچا وہاں جہاں ہیں آپ ۖ کہکشائوں کی کہکشاں ہیں آپ ۖ آپ ۖ محبوبِِ کبریا لاریب باعثِ خلقِ ہر جہاں ہیں آپ ۖ جس جہاں میں ہے انبیاء کا قیام بے گماں اس کا آسماں ہیں آپ ۖ آپ کے…
رند کو مے چاہیے واعظ کو ایماں چاہیے اپنی اپنی خواہشوں کا سب کو زنداں چاہیے دو عناصر ہوں تو بنتا ہے غزالاں کا مزاج خوئے وحشت چاہیے اور دشتِ حیراں چاہیے ریگِ صحرا کی طرح سنگِ ملامت آئے ہیں اس ذخیرہ…
ہم قافلہ خوشبوئے ایوانِ وفا ہیں پہچان ہماری ہے کہ ہم بادِ صبا ہیں شب کلفت افروز میں گزرے تو گزر جائے ہر صبح کی ساعت کے لیے تازہ ہوا ہیں ہوشیار ہو اے مہتمِ عہد بہاراں ہم صحنِ چمن کو جرس…
ٹھر گیا ہے کہیں دل ، سمٹ گئی ہے نظر نہ جانے کیسے ترا انتظار رک سا گیا غریب شہر نے جب سے یہاں صدا دی ہے امیر شہر کا کچھ کاروبار رک سا گیا ہے بسا غنیمت ہے یہ بھی فریب…
درد سے دل نے آشنائی کی اپنے دشمن کی پذیرائی کی لہجہ رکھتے ہیں اجنبی کا سا بات کرتے ہیں شناسائی کی پر شکستہ کا حکم ہے جس میں ہے اسی میں خبر رہائی کی زندگی کس قدر دگرگوں ہے بات کرتے…
آزردگئی جاں کا ہنر سیکھ رہے ہیں سیکھا نہیں جاتا ہے مگر سیکھ رہے ہیں کل ہم کو بھی اس بزم سے کچھ کام پڑا ہے اس بزم کے آدابِ نظر سیکھ رہے ہیں ایسا نہ ہو ویران ہو جائے دوبارہ کیسے…