اس شہر تجارت میں ہر چیز میسر ہے کتنے کا نبی لو گے کتنے کا خدا لو گے انصاف تو ہوتا ہے معیار الگ ہوں گے میں ساری سزا لوں گا تم ساری جزا لو گے کیا دل کے دھڑکنے کی آواز…
ہم نے اس شہر میں جینے کا ہنر ضائع کیا منزلیں ایسی ملی ہیں کہ سفر ضائع کیا شعر بے ربطی افکار سے بوجھل ٹھہرے ناز تھا جس پہ وہ اندازِ نظر ضائع کیا تختہ گل میں لہو رنگ ہے کانٹوں کی…
نام آوروں کے شہر میں گمنام گھومنا اپنا تو اک شعار ہے ناکام گھومنا ہاتھوں میں خالی جام لیے میکدے کے پاس معمول بن گیا ہے سرِ شام گھومنا دامن میں سنگ ہائے ملامت جمع کیے شانوں پہ ڈالے پوششِ الزام گھومنا…
محبت کی نہیں جاتی محبت ہو ہی جاتی ہے دیارِ عشق میں کاٹی لمبی زندگی ہم نے ہزاروں عاشقوں سے دوبہ دو یہ گفتگو کی ہے ہر اک عاشق نے سمجھایا ہمارے تجربے نے ہم کو سکھلایا سمجھ میں بس یہی آیا…
ہم جب بھی تنہا گھر گئے سائے سے اپنے ڈر گئے تیری جدائی سے صنم ہم جیتے جی ہی مر گئے سنتے ہی ذکر کربلا آنکھوں میں آنسو بھر گئے نہ پیار ہم کو مل سکا کاسہ لیے در در گئے راہِ…
مجھکو معصومیت کا صلہ مل گیا وہ جو بچھڑا کوئی دوسرا مل گیا ہے مقدر بھی پتھر کی جیسے لکیر ہم نے چاہا تھا کیا اور کیا مل گیا دل میں مرنے کی خواہش نہیں اب ذرا ہم کو تو جیتے جی…
ایک دریا تھا اور کنارہ تھا میرا گائوں بہت ہی پیارا تھا چھت ٹپکتی تھی بارشوں میں کبھی گھر تھا کچا مگر ہمارا تھا ہاتھ سر پر کسی کا ہونے سے دل کو ڈھارس سی تھی سہارا تھا چھوڑ کر سب وہاں…
جاگتے جاگتے رات ڈھل جائیگی زندگی ایک دن رُخ بدل جائیگی پیار کے چند لمحوں میں کیا خبر تھی بات سوچوں سے آگے نکل جائیگی ہے غریبوں کی بچی نہ گڑیا دیکھی نہ سمجھ ہے بیچاری مچل جائیگی چند دن کو ہے…
چمپئی رنگ اور سیاہ آنکھیں کر نہ ڈالیں ہمیں تباہ آنکھیں چھوڑ دیں کاروبارِ دنیا پھر ہم کو دے دیں اگر پناہ آنکھیں مل گئیں ہم سے ایک بار اگر جان لیں گی خدا گواہ آنکھیں اک جھلک دیکھنے پہ دل نے…
مجھ پہ کیوں اسطرح سے ہنستا ہے دل بڑی مشکلوں سے بستا ہے میرے گائوں کے گھر ہیں سب کچے ارے بادل کہاں برستا ہے جو کبھی لوٹ کر نہیں آئے ان سے ملنے کو دل ترستا ہے عاشقی کا مقام کیا…
دوست ہی کیا سدا رہیں گے ہم بات کچھ تو بڑھائیے صاحب ہو گیا جو لکھا تھا قسمت میں کاہے آنسو بہائیے صاحب پاس آ جائیے خدا کے لیے دل نہیں اب جلائیے صاحب بھوک تو مر گئی ہماری اب کس کی…
گلابوں سے مہکی لڑی ہو گئی ہوں محبت کی پہلی کڑی ہو گئی ہوں مجھے تو نے ایسی نگاہوں سے دیکھا کہ میں ایک پل میں بڑی ہو گئی ہوں سر شام آنے کا ہے اس کا وعدہ میں صبح سے در…
عشق کہتا ہے کیے عہد کی تجدید کرو حسن کہتا ہے ذرا صبر سے امید کرو بات محنت کی ہے حالات بدل جاتے ہیں کون کہتا ہے ہمیشہ نئی تمہید کرو میں نے تو بول دیا آپ نکالو معنی میرے لکھے پہ…
مشق جیسی چاند ماری اور ہے دشمنوں کی ضرب کاری اور ہے ہر کسی کے ذہن پہ ہے میں ہی میں شہر میں پھیلی بیماری اور ہے ہم تو ماہر توڑنے کے ہیں جناب بیچنے والوں کی باری اور ہے جوڑنے سے…
کشتیاں لڑنی ہوں تو پہلوان ہونا چاہییے ورنہ بندے کو پسر انسان ہونا چاہییے ایک کی پگڑی اچھالی ایک کا چھینا رومال بدتمیزی ایک نہیں طوفان ہونا چاہییے فوج میں ہوتے حفاظت سرحدوں کی خوب کی خان صاحب آپ کو دربان ہونا…
بیشتر کہ صدر کی تقریر ہونی چاہییے ہر کسی کے ہاتھ میں تصویر ہونی چاہییے خاص لوگوں کو بٹھائو عزت و تکریم سے عام لوگوں کیلئے زنجیر ہونی چاہییے عارضی سی شے حکومت کل رہے یا نہ رہے بال بچے ہیں کوئی…
قدم بڑھائے وفائوں کی داستان چلے ہمارا حوصلہ دشمن کے درمیان چلے دلوں پہ جبر کرو مسکرائو غم نہ کرو بڑھائو ہمتیں بیٹے جری جوان چلے کلی سے پھول کھلے نہ کھلے بہار نہ ہو خزاں میں زیب نہیں خار کی زبان…
جفا ہنس ہنس کے سہہ لینے کی بیتابی نہیں بھولی کیے وعدے پہ بیتی رات بے خوابی نہیں بھولی بہے تھے تو بہت آسان تھی تیران دریا کی بھنور میں کیا پھنسے یادوں کی گردابی نہیں بھولی تڑپ جاتی ہے جب کوئی…
وہ ترنم وہ تیری آواز سرگم یاد ہے وہ کسک یادوں کی وہ گفتار پیہم یاد ہے کھینچ رہی ہے وہی تصویر دل میں آج بھی وہ سنہری دور وہ گہوارہ انجم یاد ہے چھین ہی نہ لے کوئی احساس کی دولت…
خامشی کے بحر میں اُچھلن نہ کوئی کود ہے سوچ پہ سایہ ذہن پہ گرد جیسا دود ہے ذہن میں ایسے طلاطم فکر میں ایسے ملال کہ گئے لاکھوں فسانے مدعا مفقود ہے شوق ہے سجدہ گری تو سیکھ راز بندگی ماننے…
جس حسنِ عنایت سے چھنا گوشئہ رضوان صد آفریں اے خوشئہ گندم تیرے قربان اضدادِ مجسم ہے گھڑا پتلئہ خاکی بن جائے تو انسان بگڑ جائے تو شیطان جب روزِ اول بخش دی مختاری ء اعمال اب میرا کیا ہے کہ تو…
بکھرتے رنگوں جیسا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں میں کیا تھا، اور اب کیا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں نہ جانے کس کا بدلہ لے گئی ہیں، ہوائیں مجھ سے کہ بس اک زرد پتا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا…
جو بھی جھوٹا تھا وہی خواب دکھایا خود کو بارہا میں نے بنایا ہے تماشا خود کو جو نامعلوم تھا پہلے اسے معلوم کیا پھر بہت دیر تلک غم میں جلایا خود کو کوئی بے مول سمجھتے ہوئے لے جائیگا اس دُھن…
اگر کچھ رابطہ باہر سے بنتا جا رہا ہے خلا اندر کا بھی تو اور بڑھتا جا رہا ہے نہ جانے کس جگہ جا کر رکے گا سلسلہ یہ بہت سے ‘آنگنوں’ میں صحن بٹتا جا رہا ہے ہمارے پاس گھر بھی…