کیسے کریں قیام اب تیرے دیار میں گم ہو چکا ہے وہم کے گردو غبار میں اِک شخص تجھ کو ڈھونڈتے قرب و جوار میں لاگو ہیں جس پہ موسمِ ہجراں کے ضابطے دامن اسی کا چاک ہے اب کے بہار میں…
اب بھی ہر خواب ادھورا تو دعا لاحاصل اپنی اِس عمر کا حاصل بھی رہا لا حاصل جب کسی رنج ومسرت سے ہی رغبت نہ رہی تجھ سے ملنے کا ارادہ بھی گیا لاحاصل حاکمِ وقت تیرے عدل کے ایوانوں میں ہم…
کھیل دنیا میں تیرے نام پہ ہارے کیا کیا جس نے آنچل میں سجائے ہیں ستارے کیا کیا اُس کی آنکھوں میںہیں صبحوں کے نظارے کیا کیا اپنی ہر جیت کو نیلام کیا تیرے لئے کھیل دنیا میں تیرے نام پہ ہارے…
چاند جب اُس کی ہتھیلی پہ ٹھہر جاتا ہے جو ہمیں دیکھ کے چُپ چاپ گزر جاتا ہے دل سے کب اُس کے تغافل کا اثر جاتا ہے ماند پڑ جاتے ہیں صبحوں کے ِطلسمات سبھی چاند جب اُس کی ہتھیلی پہ…
جنگ نوحہ جوان لاشوں کا یہ جو تہذیب کی کہانی ہے سب معیشت کی ترجمانی ہے کارخانوں کی چمنیوں کا دھواں ننگ و افلاسِ زندگانی ہے نُورِ سرمایہ کی یہ جلوہ گری میری آنکھوں کی خوں فشانی ہے کتنے قرنوں سے نسلِ…
مجھ کو معیوب سی لگتی ہیں تمہاری باتیں خود سے منسوب سی لگتی ہیں تمہاری باتیں جانے کیا بات ہے، کیا راز چھُپا ہے اِن میں کتنی معجوب سی لگتی ہیں تمہاری باتیں شام ہوتے ہی کسی درد میں ڈھل جاتی ہیں…
میں کہیں گم ہو گیا ہوں جب سے تم ہو گیا ہوں بجھتی ہوئی لو جیسے بہت مدہم ہوگیا ہوں اسقدر زخم ملے ہیں اب تو مرہم ہوگیا ہوں تیری گلیوں کی جیسے پیچ و خم ہوگیا ہوں قیاسوں میں ہوں جیتا…
زندگی درد و مصائب سے بھری دنیا میں ہم نے جِس طور گزاری ہے سنائیں کیسے اِک غم عشق کا ہو بوجھ تو سہ پائیں اسے اِس غمِ دہر کے صدمات اٹھائیں کیسے ہم نے کچھ تیرا بگاڑا تھا نہ دنیا کا…
زندگی ہِجر کی کہانی ہے اِس کہانی میں جو کہانی ہے اب تیرے رُوبرو سنانی ہے چاند ہے، رات ہے، سمندر ہے اور یادوں کی راجدھانی ہے اِک دیا آج بھی جلانا ہے پر سحر آج بھی نہ آنی ہے ہم نے…
گھوڑے پہ چڑھ کے کوئی سکندر نہیں ہوا دو شعر لکھ کے کوئی سخنور نہیں ہوا اس عہدِ بے ضمیریِ حرف و قلم میں بھی لفظوں کا کاری گر تو قلندر نہیں ہوا قدآوری کا شوق تومجھ کو بھی تھا مگر اب…
ہو سایہ تیرے سر پہ بہاروں کی رِدا کا ہونٹ کی حلاوت نہ کسی دستِ حنا کا اب کوئی بھروسہ بھی نہیں اہلِ وفا کا اے میری محبت کا بھرم توڑنے والے اندازہ نہیں تجھ کو میرے کرب و بلا کا وہ…
دل تیرے دردِ محبت میں گرفتار بھی ہے اور اِس غم سے رہائی کا طلبگار بھی ہے تیرے ہر حکم کی تعمیل ضروری تو نہیں ہاں مجھے تیری کِسی بات سے اِنکار بھی ہے ایک اِسرار کہ اب تک نہ کھُلا ہے…
اے میرے واعظِ خوش بخت تیرے ہونٹوں سے مجھ کو یہ درد کے قصے نہیں اچھے لگتے تیرے کردار کی دورنگی سے نفرت ہے مجھے یہ تیرے عجز کے دعوے نہیں اچھے لگتے یہ گناہوں کی، ثوابوں کی ، تجارت کیا ہے؟…
محبت کو دنیا میں مشہور کر دوں تجھے بھی محبت میں رنجور کر دوں اگر شیشہء خواب کو چُور کر دوں تیری آنکھ کی پُتلیوں میں سما کر رہِ زندگانی کو پُرنور کر دوں تجھے اپنی دھڑکن میں محصور کر کے خیالوں…
نہ محبت کا نہ کدورت کا تجھ سے ناطہ ہے بس ضرورت کا ہم صلیبوں پہ جھولنے والے! پاس رکھتے ہیں سچ کی حرمت کا بھوک اگنے لگی ہے کھیتوں میں کتنا کڑوا ہے پھل یہ محنت کا مفلسی رو رہی ہے…
شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی پھول سے چہروں پہ حسرت نہیں دیکھی جاتی ہم سے موسم کی عداوت نہیں دیکھی جاتی اب کسی چاپ نہ آہٹ کا گماں ہوتا ہے دل سے تنہائی کی وحشت نہیں دیکھی جاتی جابجا…
ہر توقع ہی اب اُٹھا دی ہے اُس نے جو بھی ہمیں سزا دی ہے اُس کے بدلے میں بس دعا دی ہے ہم نے دل کے نصابِ ہِجرت میں تیری یادوں کو ہی جگہ دی ہے ایک کشتی تھی آرزوئوں کی!…
سمٹے ہوئے ہیں آنکھ میں حسرت کے سلسلے صدمات ِماہ سال کی شِدّت کے سلسلے انسانیت کا روگ ہیں غربت کے سلسلے بکھری ہوئی ہیں چارسُو خوابوں کی کرچیاں سمٹے ہوئے ہیں آنکھ میں حسرت کے سلسلے دیکھے کوئی تو جادہء حُزن…
تیرے ہاتھوں فریب کھانے لگے جب بھی دنیا کے غم ستانے لگے ہم تیری یاد کو جگانے لگے جِس کو پایا پلک جھپکتے ہوئے اُس کھونے میں کب زمانے لگے چین آجائے وحشتِ دل کو تُو اگر روز آنے جانے لگے میرے…
ہار جانے کا حوصلہ رکھا سب اندھیروں کو زیرِ پا رکھا جب ہتھیلی پہ اِک دیا رکھا کوئی بھی اختلاف جیون میں تجھ سے رکھا تو برملا رکھا ہم نے تجھ سے وصال و فرقت کا ہر تعلق ہی کچھ جدا رکھا…
جاں سے عزیز تر رہے وحشت کے سلسلے راہِ وفا میں غم کی مسافت کے سلسلے جاری ہیں اب بھی اپنی اذیت کے سلسلے دنیا نے لاکھ ہم کو کیا بدگماں مگر ٹوٹے کبھی نہ تجھ سے محبت کے سلسلے تا عمر…