المدد اے چاک دامانو، قبا خطرے میں ہے ڈوبنے والو بچائو ناخدا خطرے میں ہے خون دل دینا ہی ہو گا اے اسیران چمن بوئے غنچہ روئے گل دست صبا خطرے میں ہے مصلحت کوشی ہے یا شوخی طرز بیاں راہبر خود…
جو غم شناس ہو ایسی نظر تجھے بھی دے یہ غم دیوار و در تجھے بھی دے سخن گلاب کو کانٹوں میں تولنے والے خدا سلیقہ عرضِ ہنر تجھے بھی دے خراشیں روز چنے اور دل گرفتہ نہ ہو یہ ظرف آئینہ،…
کیا خبر تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دیگا وہ کر کے خواب کا وعدہ مجھے بے خواب کر دیگا کسی دن دیکھنا وہ آ کے میری کشت ویراں پر اچٹتی سی ڈالے گا اور شاداب کر دیگا وہ اپنا حق…
نظر ملا کے ذرا دیکھ مت جھکا آنکھیں بڑھا رہی ہیں نگاہوں کا حوصلہ آنکھیں جو دل میں عکس ہے آنکھوں سے بھی وہ چھلکے گا دل آئینہ ہے مگر دل کا آئینہ آنکھیں وہ اک ستارا تھا جانے کہاں گرا ہو…
جو بات تجھ میں ہے تری تصویر میں نہیں رنگوں میں تیرا عکس ڈھلا تو نہ ڈھل سکی سانسوں کی آنچ جسم کی خوشبو نہ ڈھل سکی تجھ میں جو لوچ ہے مری تحریر میں نہیں بے جان حسن میں کہاں رفتار…
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا میں وہ نغمہ ہوں جسے پیار کی محفل نہ ملی وہ مسافر ہوں جسے کوئی بھی منزل نہ ملی زخم پائے ہیں بہاروں…
تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے ہم بھری دنیا میں تنہا ہو گئے موت بھی آتی نہیں آس بھی جاتی نہیں دل کو یہ کیا ہوا کوئی شے بھاتی نہیں ایک جان اور لاکھ غم گھٹ کے رہ جائے نہ…
میں پل دوپل کا شاعر ہوں پل دوپل میری کہانی ہے پل دوپل میری ہستی ہے پل دوپل میری جوانی ہے مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آکر چلے گئے کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے کچھ نغمے گا کر چلے…
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھائوں میں گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی عجب…
محبت ترک کی میں نے گریبان سی لیا میں نے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے انہیں…
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زنگی سے ہم ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم مایوسئی مال محبت نہ پوچھیے! اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہ امید لو اب کبھی…
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے نہ ظاہر ہو تمہاری…
یہ کوچے یہ نیلام گھر دل کشی کے یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے کہاں ہیں کہاں محافظ خودی کے ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟ یہ پریچ گلیاں یہ بے خواب بازار یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار یہ عصمت…
تم چلی جائو گی، پرچھائیاں رہ جائیں گی کچھ نہ کچھ حسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی تم تو اس جھیل کے ساحل پہ ملی ہو مجھ سے جب بھی دیکھوں گا یہیں مجھ کو نظر آئو گی یاد مٹتی ہے نہ…
ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر۔8 مارچ 1921 کو لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ خالصہ سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے میں داخلہ لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کردیا۔…
شام سے تنہا کھڑا ہوں یاس کا پیکر ہوں میں ہوں اور فصیلِ شہر سے باہر ہوں میں تُو تو آیا ہے یہاں پر قہقہوں کے واسطے دیکھنے والے بڑا غمگین سا منظر ہوں میں میں بچا لوں گا تجھے دنیا کے…
کمرے کی کھڑکیوں پہ ہے جالا لگا ہوا اُس کے مکاں پہ کب سے ہے تالا لگا ہوا پائی تھی گھر کے سامنے مفرور شب کی لاش اُس کے بدن میں برف کا بھالا لگا ہوا بارش بھی میرے دامنِ دل سے…
اب نظر آنا بھی اُس کا کہانی بن گیا وہ زمیں کا رہنے والا آسمانی بن گیا آج تک دل میں کوئی ٹھہرا نہیں اس کے بعد یہ مکاں بھی جانے والے کی نشانی بن گیا ڈوبتا ہی جا رہا ہے شہر…
کام بھی کرنا جنوں کا تو نہ ظاہر ہونا کتنا دشوار ہے اس دور میں شاعر ہونا موسمِ گل میں بھی آئیگا جہاں پھول نہ پھل میری قسمت میں تھا اس شاخ کا طائر ہونا موت آئیگی تو اُلٹ دیگی بساطِ دنیا…
گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر محازِ زیست سے لوٹا ہوں سرخرو ہو کر اُسی کی دید کو اب رات دن تڑپتے ہی ہیں کہ جس سے بات نہ کی ہم نے دُوبدو ہو کر بجھا چراغ ہے دل…
کچھ ایسے خشک ہوتا جارہا ہوں زمیں خود میں سموتا جارہا ہوں کھلے گا اک گلِ خورشید دن کو ستارے شب میں بوتا جا رہا ہوں سفر کی اک نشانی بھی نہیں ہے کہ جو پاتا ہوں کھوتا جا رہا ہوں ملے…
طاق پر جزدان میں لپٹی دُعائیں رہ گئیں چل دیے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں ہو گیا خالی نگر بلوائیوں کے خوف سے آنگنوں میں گھومتی پھرتی ہوائیں رہ گئیں درمیاں تو جو بھی کچھ تھا اسکو وسعت کھا گئی…
اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو تھک گئے ہو تو مرے کاندھے پہ بازو رکھو بھولنے پائے نہ اُس دشت کو وحشت دل سے شہر کے بیچ رہو باغ میں آہو رکھو خشک ہو جائے گی روتے ہوئے صحرا…
ہلے مکاں نہ سفر میں کوئی مکیں دیکھا جہاں پہ چھوڑ گئے تھے اُسے وہیں دیکھا کٹی ہے عمر کسی آبدوز میں سفر تمام ہوا اور کچھ نہیں دیکھا کِھلا ہے پھول کوئی تو اُجاڑ بستی میں مکانِ دل میں کہیں تو…