وہ میرا چاند کوئی چاند سی عادت رکھتا میرا ہوتا تو یوں مجھ سے نہ عداوت رکھتا اپنے تو چاہنے والوں سے محبت رکھتا اس کی آنکھوں میں جو انسان شناسی ہوتی دور افتادہ فقیروں سے بھی نسبت رکھتا میرے آنسو نہ…
منحوس سماجی ڈھانچوں کو مسمار کرو، مسمار کرو انسان برابر ہیں سارے سب انسانوں سے پیار کرو ہر مذہب کا یہ محور ہے اِس محور کا پرچار کرو جیون کی اندھیری راہوں میں اِک دِیپ جلائو چاہت کا پھر دیپ سے دیپ…
وہ خوش شکل ہے، وہ خوش ادا ہے، مری بلا سے وہ جس کسی سے بھی مل رہا ہے، مری بلا سے میں جس کے وعدوں کی بھول بھلیوں میں کھو گیا ہوں وہ اب اگر مجھ کو ڈھونڈتا ہے ،مری بلا…
خاک میں گہر گنوائے کیا کیا آنکھ نے اشک بہائے کیا کیا ایک تیری باتوں میں آکر دل کو روگ لگائے کیا کیا کیسے کیسے لوگ جو بچھڑے موسم راس نہ آئے کیا کیا دن تو گزرا پتھر کھاتے رات نے درد…
دِل کی لگی میں نیند نہ آئی تو رو پڑے بزمِ تصورات سجائی تو رو پڑے بِچھڑے ہوئوں کی یاد جو آئی تو رو پڑے ساقی نے اپنے دستِ سخاوت سے دوستو اِک بوند آج ہم کو پلائی تو رو پڑے اے…
حیات اک نظم ہوتی تو میں اسکو خوبصورت استعاروں سے سجا لیتی قزح کے سات رنگوں کو میں لمحوں میں پرو دیتی کہیں پر شام کا منظر طلوع ِ صبح کی لالی فلک سے کہکشاں لا کر زمیں سے تتلیاں لے کر…
خود جلائے کبھی مصلوب کئے جاتے رہے درد پہ انکے کئی خوب کئے جاتے رہے سسکیاں لیتے رہے اور کبھی چلانے لگے کبھی خاموش و پشیماں بھی نظر آنے لگے آہ سنتی رہی انکی میں کبھی خوابوں میں جاگ اٹھنے پہ وہ…
دل تیرے تصور سے بہلتا نظر آئے جس روز تیرا چہرہء زیبا نظر آئے صحرا بھی مجھے صورتِ دریا نظر آئے اس غم کی کڑی دھوپ میں اِک پل کیلئے ہی اے کاش تیری زلف کا سایہ نظر آئے خوشبو ہو تیرے…
جام چھلکے تو کوئی یاد آیا زخم مہکے تو کوئی یاد آیا جب بھی برسات کے نظاروں میں گھر سے نکلے تو کوئی یاد آیا زندگی کی اداس پلکوں پر اشک چمکے تو کوئی یاد آیا ہِجر کے بے کراں سمندر میں…
الفت محبوب سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے دررسول پاک پرقسمت تبدیل ہوتی ہے درودوسلام کے تحفے نبی پر بھیجنے سے اللہ کے فرمان مبارک کی تعمیل ہوتی ہے فہم دین کیلئے ضروری ہے سمجھنادونوں کا قرآن میںاجمال حدیث میں تفصیل ہوتی…
میں نے اس کے شہر میں جاکر دیکھا ہے وہ برسوں کے بعد بھی بالکل ویسا ہے سر پر اب بھی رات سی کالی زلفیں ہیں پیشانی پر چودھویں رات کا چندا ہے ابرو ہیں کہ سونت رکھی ہیں تلواریں آنکھوں میں…
ابھی تقدیر سے دامن چھڑا کر چل نہیں سکتے بڑے کمزور ہیں سر بھی اٹھا کر چل نہیں سکتے ابھی حالات سے آنکھیں ملا کر چل نہیں سکتے ابھی اندھی مسافت وقت کی درپیش ہے ہم کو ابھی تقدیر سے دامن چھڑا…
غمِ حیات کے ماروں پہ مسکرا ساقی جو ہو سکے تو کوئی جام ہی پِلا ساقی اداس رُت کے مسافر ہیں نہ ہنسا ساقی ہمارے نام سے حاصل ہے وحشتوں کو فروغ ہماری ذات ہے دنیا میں اِک عطا ساقی ہماری بات…
تیرے غم کی بحالی ہو نہ جائے زمیں کی کوکھ خالی ہو نہ جائے نظر پھِر سے سوالی ہو نہ جائے میرے ماتھے پہ سورج اگ رہا ہے تمہاری رات کالی ہو نہ جائے خوشی کی اور نہ غم کی ہے پرواہ…
نِکہت و نُور کی تصویر میرا پیارا وطن میرے ہر خواب کی تعبیر میرا پیارا وطن اِس کی نسبت سے زمانے میں ہے پہچان میری اِس کے پرچم کی بلندی ہے فقط شان میری میری آنکھوں کی ہے تنویر میرا پیارا وطن…
اچانک کہیں گم ہو جانے سے ڈر لگتا ہے محبت تو کر سکتا ہوں نبھانے سے ڈر لگتا ہے زندگی ہے جو موت کے قریب کئے جاتی ہے بس اتنی سی بات سمجھانے سے ڈر لگتا ہے بضد تھا مجھے کسی کھیل…
یہ میرے شعروں کی رنگیں وادی یہ میرے جذبوں کے بہتے دھارے وصل کی نارسا سی گھڑیاں ہِجر کے معتبر سہارے دمِ سحر اُفق پہ تاباں ! مسافتوں کا ابھرتا سورج مسافتوں کی عذاب رُت میں اداس دل کی اداس باتیں غموں…
برگ و گل پہ نکھار تھوڑی ہے اب چمن میں بہار تھوڑی ہے خال و خد پہ سجا کے پھرتے رہیں درد ہے یہ ، سنگھار تھوڑی ہے غور سے دیکھ میری آنکھوں میں تشنگی ہے ، خمار تھوڑی ہے مشکلیں ہیں…
اپنی بربادی کا کچھ جشن منایا جائے اس کا اجڑا ہوا چہرہ نہ دکھایا جائے مجھ کو احساسِ ندامت سے بچایا جائے دور رہنا بھی میری جان اگرچہ ہے محال کیا کریں سامنے تیرے بھی نہ آیا جائے خواب در خواب تیرا…
جل رہے ہیں بھِیگی پلکوں پر ستارے آج بھی نام کندہ ہیں درختوں پر ہمارے آج بھی یاد ہیں وہ پیار میں ڈوبے نظارے آج بھی تیرے میرے بعد بھی دو سائے ہر پوُنم کی رات کرتے ہیں سرگوشیاں ندیا کنارے آج…
لہو میں جِسم نہلانا پڑے گا ابھی تو خود کو منوانا پڑے گا ابھی ماحول ہے وحشت کی زد میں ابھی اِس دِل کو سمجھانا پڑے گا اکیلے گھر کے سناٹے سے ڈر کے سرِ بازار ہی آنا پڑے گا پرائے بام…
تمھیں کیا پتہ کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے بے رخی کی دلدل میں جب اترنا پڑتا ہے دل سارا کا سارا زخم ذدہ ہوچکا ہے اپنا لوگوں کی محبتوں سےاب مکرنا پڑتا ہے سب کو تھوڑی تھوڑی محبت بانٹ سکوں گاہے…
گَل کِیہہ کرنی منہ ویکھن نوں ترس گئے آں مُدتاں ہویاں عید کرن نوں ترس گئے آں جِس نوُں مِل کے اپنا آپ پچھانیا سِی اوسے وِ چھڑے یار سجن نوں ترس گئے آں پَکھّی واساں دے نال یارو دِل لا کے…