ایکسٹیسی
وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی
واہمہ
تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے
شام آئی، تری یادوں کے ستارے نکلے,
رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
اُلجھن
قریئہ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے
پیشکش
موجیں بہم ہوئیں تو کنارہ نہیں رہا
کیا کیا دُکھ دل نے پائے
کنگن بیلے کا
اسی طرح سے ہر ایک زخم خوشنما دیکھے
ہجر کی شب کا کسی اسم سے کٹنا مشکل
ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو
دل پہ اک طرفہ قیامت کرنا
بچھڑا ہے جو اک بار تو ملتے نہیں دیکھا
بعد مدت اسے دیکھا، لوگو
اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو