جانے کیوں اب مجھ سے مسکرایا نہیں جاتا
وہ کیسی آزادی مناتے ہوں گئے؟
سانحہ کوئٹہ
وطن کا گیت
اسی کے نور سے ہم انحراف کر بیٹھے
آگ لگا دو، محل جلا دو، جان لڑا دو
صحافیوں کی تقسیم، ضیائی سازش دہرائی جا رہی ہے، آرآئی یو جے
کر کے اپنے ہی ہاتھوں سے میرے اعتبار کی کرچیاں
ہے کیسے دنیا میں تیری جینا یہ میں نے اپنے نبی سے سیکھا
کامیاب زندگی
خدا زمیں سے گیا نہیں ہے
عید کا چاند
آنکھوں کا بخت ہو گئے اشکوں کے سلسلے
بوجھ اتنا تھا کہ پلکوں سے اٹھایا نہ گیا
عید کا چاند
قطعہ
غزل
امیدِ وصل کے عنواں نِکھرنے والے ہیں
سکوتِ شامِ الم سے تیرا پتا مانگوں
نفرتوں میں بھی محبت کا سلیقہ رکھا
ہنسی ہنسی میں گلے بے شمار کر دے گا
وہ کیا زمانے تھے
برسات مسلسل
عید کا موقع