وہ وقت میری جاں دور نہیں
چاہنے والے سلیقے سے جِیا کرتے ہیں
کسی کو ٹوٹ کر چاہا نہ کرنا
یہ اب کے حادثہ کیسا ہوا ہے
کسی کو ٹوٹ کر چاہا نہ کرنا
بساط زیست
ماں
آج پھر اپنی وفائوں میں کمی دیکھی ہے
مرے مظلوم و غمزدہ لوگو
میرا زندہ اب بھی ضمیر ہے
ڈنکے کی چوٹ پر۔۔۔
عشق
ماں
اسے کہدو محبت کی کہانی زندہ رہتی ہے
غزل
ہمیں یقین ہے آقا ہمیں بلائیں گے
سلام امجد صابری 1976……2016
قطعہ
غزل
قطعہ
غزل
غزل
خدا خیر کرے
کھلی جنگ ہے اپنی