جوانی تیری
غزل
نعت شریف بصورت آزاد نظم
کچھ دیر ابھی
آواز دے ہمیں
لمحہ موجود
آثار اور امکان
ایک وہ ہیں کہ ساقیا جن پر
میرے خوں میں ڈبوئے جسم و جاں کو دھو نہیں سکتے
کبھی اسے کبھی خود کو رلایا کرتے تھے
قطعہ
کبھی کبھی تو یہ دل بھی فقیر لگتا ہے
غم کے صحرائوں میں گھٹا نہ ملی
سندر آنکھیں
ابھی کچھ وحشتوں کے در کھلیں گے
جلنے پائے نہ کوئی اور نگر ہوش کے ساتھ
اپنی انا کے خول سے باہر نہ آ سکے
اس آئینے میں اب کوئی صورت نظر نہ آتی ہے
حادثوں کا کمال ہو جیسے
سِتم جفا کا دوبارہ کہیں نہ کر جائے
انکار صلیبوں پہ جڑے ہیں یارو
بے ارادہ ہی کبھی تجھ سے جدا ہو جائیں
الٹ ترتیب
محبت