کِس قدر تلخیء حالات رلاتی ہے ہمیں
دعا
دیر تلک
غزل
غزل
غزل
غیرتوں کا سفر
عورت اور ہم
۔۔۔۔۔گردش ایام۔۔۔۔
قوم کے حاکموں اور محافظوں کے نام!!!
کوئی منزل نہ راستہ کوئی
پلٹ آئے
میں جب ہنگامہ شام و سحر کی بات کرتا ہوں
سانحہ گلشن پارک لاہور
چاہتے ہیں
رقص کرتی ہوئی ظلمت کی رِدا ہو جائو
دن رات تڑپنے کا صلہ مانگ رہے ہیں
ہنسنا سکھا دیا کبھی رونا سکھا دیا
قطعہ
سندر لمحے
نیک تمنائیں
بے بسی
رنگ ،خوشبو، گلاب بھیجے ہیں
سانحے مبارک ہوں