ہوئی جاتی ہیں پلکیں نم مسلسل
فلسفی ہیں نہ ستاروں کی خبر رکھتے ہیں
نظر کے کینوس پر خونچکاں پیکر بناتا ہوں
دعائے امن
غزل
مسلسل
عظیم لوگ
اب کے عید گزری
دشمن کی کوئی چال نہ جھگڑا رقیب کا…
سانحه گلشن پارک لاهور
چپ کی چادر اوڑھ کے سونے والے ہیں
نیلگوں آسمان مانگتا ہے
دار و رسن کے مرحلے جاں سے عزیز ہیں
تیرے قدموں کی دھول ہو جائیں
خواب تیرا
ماں
خوشبو
زخم دیتی ہے بے سبب دنیا
ڈر لگتا ہے
رات جب چاند ستاروں سے گلے ملتی ہے
جب چلا قافلہ ستاروں کا
پاکستانی میڈیا کے نام
اپنا ہر اشک شبِ غم میں ستارا کر لیں
سامنے ہے سراب صدیوں کا