کسی خوش گمان میں هو صاحب
مایوسی کا تھا غبار
غزل
جو ہوا سو ہوا بھول گئے
پاکستانی میڈیا کے نام
ظلمتیں بدنام ہونے دیجئے
کون ہوتا ہے سہارا غم کٹھن حالات میں
بات کوئی خاص بھی نہ تھی
وہ
ہونٹ بند قلب بیان رکھتے ہیں
دھیرے دھیرے مرتی جا رہی ہے زندگی
ختم کر دے خشک سالی کا عذاب خدایا
انتقام
شناسائی سے تم بچنا شناخت مار دیتی ہے
چند روز پہلے یہ غم برسات میں نہیں تھا
نہیں آتے
اپنے لفظوں میں بیاں پیدا کر
شکست
تنم فرسودہ جاں پارہ زہجراں یارسول اللہ
برستی هوئی آنکھوں پر مسکراہٹ انجانی ہے
لڑو گے اور پچھتائو گے ستارے سچ ہی کہتے ہیں
جبیں
تجھ سے تو شناساں ہیں ہر موڑ کے راہی
تصویر مٹا دی ہم نے