دل جب بھی تیرے ملنے کی دعا کرتا ہے
سلام عقیدت
پھر سے نیا حوصلہ ہے پایا
سلام بحضور امام عالی مقامؓ
یہ عمر بھر کی بات تھی
مظلوم کی اک آہ جو بدل دے تیری قسمت
میں نے ترکِ تعلقات کا پوچھا اُسے بھی تھا
آنکھیں کے جن کے واسطے جلتی رہیں میری
جاتے جاتے اتنی تو عنائیت کرتا
رخت سفر
تیرے نام کی
یہ داغِ محبت ہے
جو لوگ محبت میں خسارہ نہیں کرتے
گھٹائیں جب بھی بنتی ہیں بادل جب بھی چھاتے ہیں
اِنقلابِ تندخو جس وقت اُٹھائے گا نظر
اپنی عادت تھی
اس نے کہا تم یاد بہت آتے هو
خدایا سن دعا میری مجھے تو سرخرو کر دے
رباعیات
میں جب بھی مانگوں تجھ سے
ابھی کچھ دیر باقی ہے
پاس ہو تو سپنا لگتا ہے
وفا کی راہ میں تنہا
جو دل رکھتے نہیں وہ درد کی بات کرتے ہیں