ماں
یادیں خوبصورت ہوتی ہیں
برس رہی ہیں نشیمن پہ بجلیاں لوگو
وقت کیساتھ ساتھ مسکرانا بھول گیا ہوں
ماں باپ کا کچا مکاں مسمار بہت ہے
تو زر دار بہت ہے
میں پوچھ تو لوں پاؤں کی زنجیر سے پہلے
آٹے کی چیڑیا
چھوڑ جائیں گے
تمھاری آنکھوں میں کانٹے ہونگے
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
ہر آدمی کا جیسے خدا ہے علیحدہ
جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے
جا رہی ہے بہار آ جاؤ
ذرا ماتم کیا جائے
اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا
نزع کے عالم میں خواب
ساون
میرا کیا ہو گا
میں
ویران اندر سے کر رہا ہے کوئی
محبت اک عبادت ہے
میں سرِ دار بھی ہوں کتنی بلندی پہ یہ دیکھ
سانسوں کو تیرے نام کی گردان کیا جائے