شوق یه که لزت دنیا بھی هم کو چاهیۓ
کیسے کریں قیام اب تیرے دیار میں
لاحاصل
کھیل دنیا میں تیرے نام پہ ہارے کیا کیا
چاند جب اُس کی ہتھیلی پہ ٹھہر جاتا ہے
جنگ نوحہ جوان لاشوں کا
تمہاری باتیں
میں کہیں گم ہوگیا ہوں
تلخیء زیست
زندگی ہجر کی کہانی ہے
گھوڑے پہ چڑھ کے کوئی سکندر نہیں ہوا
ہو سایہ تیرے سر پہ بہاروں کی رِدا کا
دل تیرے درد محبت میں گرفتار بھی ہے
واعظ خوش بخت کے نام
محبت سے خوف آتا ہے
محبت کو دنیا میں مشہور کر دوں
تمہاری یاد آئی
نہ محبت کا نہ کدورت کا
شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی
ہر توقع ہی اب اٹھا دی ہے
سمٹے ہوئے ہیں آنکھ میں حسرت کے سلسلے
تیرے ہاتھوں فریب کھانے لگے
ہار جانے کا حوصلہ رکھا
جاں سے عزیز تر رہے وحشت کے سلسلے