سنبھل جانے کی بھی مہلت نہیں ملتی
شاید کسی کی یاد کا میلہ لگا بھی ہو
اب تیرا کون انتظار کرے
صحرا کے مسافر کو تو دریا نہیں ملتا
غربت نے میری صبر کا چہرہ پہن لیا
کوئی تو ہجر کی وحشت میں سنبھالے مجھ کو
کیا ملتا ہے
کیوں ہے چاہتوں پہ زوال سا
جو کنارا نظر میں رکھا ہے
روز آنکھوں میں کوئی خواب نیا ہوتا ہے
تیرے پیاروں کی خیر ہو بابا
ملے فرصت تو گہری نیند سو لوں
منقبت بحضور حضرت زینب سلام اللہ علیہا
اپنی یادوں کو شال ہونے دے
نیند اب نہیں آئے گی
ڈوبتی ہوئی کشتی سے
جگ ہنسائی کی حد ضروری ہے
قیمت تو چکانا پڑتی ہے
جواں مردی
ہو جائے نہ اونچا کہیں پانی تیرے سر سے
دردکار اگ ہو بھی سکتی ہے
رنگ، مذہب نہ عقیدے کی تجارت کیجے
آگ کو پانی لکھ دوں
عدل و انصاف