ہندوستانی سیاست کی خصوصیت ہے کہ یہاں ہر شخص، گروہ، جماعت اور پارٹی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں اس کے باوجود کہ وہ خود اسی کیچڑ میں لت پت ہوتے ہیں۔کچھ یہی معاملات حالیہ 2014کے پارلیمانی انتخابات کے تناظر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ایک جانب کانگریس اور اس کے قائدین بھارتی جنتا پارٹی کی قیادت کو زیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں تو وہیں دوسری جانب بھارتی جنتا کی پارٹی کے لیڈران بھی کسی سے کم نہیں۔بی جے پی کی قومی مجلسِ عاملہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے برسرِ اقتدار جماعت کانگریس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے دیمک’ سے تعبیر کیا ہے۔
دوسری جانب کانگریس کے بڑے رہنما اور سابق مرکزی وزیر منی شنکر ایّر نے مودی کے بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک خبر رساں ادارے سے کہا کہ مودی نے ہمیں دیمک کہا ہے تو وہ خود سانپ ہیں، بچھو ہیں۔نریندر مودی نے بی جے پی کو ایک ایسی سیاسی پارٹی کہا ہے جوایک مشن کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، جب کہ کانگریس کی پارٹی کو انہوں نے کمیشن کی پارٹی بتایا ہے۔ انہوں نے کہا،ہر کام کے لیے کمیشن طے ہے۔ایک فی صد ، دو فی صد، تین فیصد۔
مودی کے مشن اور کمیشن والے بیان پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے منی شنکر ایر نے کہا،ہاں وہ مسلمانوں کو مارنے کی پارٹی ہے، اقلیتوں کو دبانے کی پارٹی ہے، اس دیش کے اتحاد کو توڑنے والی پارٹی ہے۔ یہ ایک ایسی پارٹی ہے جو ہماری مذہبی رواداری میں یقین نہیں رکھتی۔ تو کیا ہم ان کی جانب سے تعریف کی امید رکھیں۔
گزشتہ دنوں بھی اسی بیان بازی میں ایک دوسرے کو شہہ مات دینے کے واقعات سامنے آئے تھے۔۔واقعہ پریس کونسل آف انڈیا کے سربراہ جسٹس مارکنڈے کاٹجوکا تھا۔جسٹس کاٹجو نے گودھرا میں ٹرین کے ایک ڈبے میں 59 کارسیوکوں یا ہندو رضاکاروں کو ہلاک کرنے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مضمون میں لکھا تھا”گودھرا میں جو واقعہ ہوا تھا وہ اب بھی پراسرار بنا ہوا ہے”۔انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ “میرے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ 2002 کے فسادات میں مودی کوئی ہاتھ نہیں تھا”۔جس کے جواب میںمضمون کا ذکر کرتے ہوئے جیٹلی نے کہا تھا کہ یہ مضمون مودی کے خلاف کاٹجو کا ذاتی حملہ محسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے مزیر کہا تھا کہ “ایسا لگتا ہے جیسے کاٹجو 2002 کے گودھرا ٹرین واقعے کے مجرموں کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
India U s
کاٹجو نے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی تفریق اور مودی کی پالیسیوں کو اجاگر کرتے ہو اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ بھارت شمالی امریکہ کی طرح بنیادی طور پر تارکین وطن کا ملک ہے۔ یہ مختلف ثقافت اور کلچر کا ملک ہے۔ اس لیے اس کو صرف سیکیولرزم اور ہرمذہب اور نسل کے ساتھ مساوی سلوک اور احترام کے اصول سے ہی متحد اورخوشحال رکھا جا سکتا ہے۔اور مودی اور بی جے پی کو انہوں نے “تنگ نظر” قراردیا تھا۔ساتھ ہی مودی پر اخبار میں لکھے مضمون میں جسٹس کاٹجو نے بھارت کی عوام پر زور دیا تھا کہ وہ مودی کو وزارت عظمیٰ تک نہ آنے دیں۔ملک کی عوام کو وہ غلطی نہیں کرنی چاہیے جوجرمن قوم نے 1933 میں جرمنی میں (نازیوں کو اقتدار میں لا کر) کی تھی۔
جواب میںارون جیٹلی نے بھی کاٹجو سے مستعفی ہونے کا مطابلہ کرتے ہوئے کہاکہ”غیر کانگریسی حکومتوں پر ان کی نکتہ چینی کی نوعیت شکریے کی ادائیگی جیسی ہے جو وہ بظاہر ان لوگوں کو ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے انہیں سبکدوشی کے بعد یہ ملازمت فراہم کی ہے”۔جبکہ کاٹجوکا کہنا تھا کہ :”جیٹلی حقائق کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں اور انہیں سیاست سے سبکدوش ہو جانا چاہیے”۔یہ بیان بازیاں جاری ہی تھیں کہ مودی کو ایک اور واقعہ نے نقصان پہنچا دیا۔
نریندر مودی کو امریکہ میں وارٹن انڈیا اکنا مک فورم کے اجلاس سے ویڈیو کانفرنسنگ خطاب کرنے کے لیے دعوت نامہ موصول ہو چکا تھا۔لیکن فورم کے اجلاس سے خطاب منسوخ ہونے کی وجہ سے نہ صرف مودی کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ وزیر اعظم کی دوڑ بھی کمزور ہوتی نظر آنے لگی ہے۔فورم نے اس بابت اپنے ایک بیان میں کہا ہے “ہم کسی مخصوص سیاسی نظریات کی حمایت نہیں کرتے، ہمارا مقصد صرف ایک ٹیم کے طور پر بھارت کی معاشی ترقی پر معنی خیز مذاکرات کو فروغ دینا ہے۔
امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں 22 سے 23 مارچ تک ہونے والے اس دو روزہ اجلاس کو مودی ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعے خطاب کرنے والے تھے۔فورم کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلبہ کی یہ تنظیم مودی کی کارکردگی، ان کی حکومت کے نظریات اور ان کی قیادت سے بہت متاثر ہے اور اسی لیے انہیں فورم سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔سنہ 1996 میں قائم ہونے والی وارٹن انڈیا اکنامک فورم کو ہندوستان پر مرکوز سب سے بڑی اور اہم تجارتی کانفرنسوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جس کے تحت ہندوستان میں موجود امکانات اور مسائل پر بحث ہوتی ہے۔واضح رہے کہ گجرات میں سنہ 2002 میں ہوئے فسادات کے لیے مودی کے کردار پر اکثر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
U.S
اسی وجہ سے امریکہ برسوں سے انہیں ویزا نہ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔اور یہی وجہ ٹھہری کے مودی کا خطاب منسوخ کیا گیا۔وارٹن یونیورسٹی کے کنونشن کو خطاب کرنے کی دعوت ایک خاص سیاسی چال تھی، جس کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ مودی کی بین الاقوامی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔چونکہ امریکہ کی جانب سے ویزانہ دیا جانا مودی کی مقبولیت کی راہ میں سب سے بڑا روڑہ ہے سمجھا جا رہا تھا، اس لیے یہ دعوت اس کے توڑ کے طور پر استعمال کی جانے والی تھی۔
لیکن امریکہ کی حقوق انسانی کی انجمنیں اور سماجی تنظیمیں اتنی متحرک اور فعال ہیں کہ خبر ملتے ہی دعوت نامہ کی سخت مذمت اور مخالفت کی اور یونیورسٹی کے ذمہ داران کو یہ یاد دلایا کہ مودی اس ریاست کے چیف منسٹر ہیں، جہاں 2002میں ہزاروں مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا تھااور متعدد مسلم خواتین کی آبروریزی کے واقعات سامنے آئے تھے۔مودی نواز میڈیا اور سیاسی حلقے اس منسوخی پر خوش نہیں ہیں لیکن امن پسند حلقے اس منسوخی کا خیر مقدم کرتے نظر آئے ہیں۔
وہیں دوسری جانب بی جے پی کے تھنک ٹینک مانے جانے والے گوند آچاریہ نے ایک نیوز چینل سے گفتگو کے دوران کہا کہ بھلے ہی عوام میں مودی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہو، جیسا کہ پارٹی کہہ رہی ہے، لیکن ان کا وزیر اعظم بننا ملک کے مفاد میں نہیں ہے ساتھ ہی نریندر مودی کے پاس تجربہ کی کمی ہے، انہیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے،اور اگر کوئی وزیر اعظم کے عہدہ اہل ہے تو وہ لال کرشن اڈوانی ہیں،جو پارٹی میں اس عہدے کے لیے سب سے اہل ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ پارٹی قیادت کی سطح پر تو صرف سازش، چالاکی اور چاپلوسی کا ہی عالم ہے۔
مودی کے حق میں رائے رکھنے والوں کا جواز ہے کہ گجرات نے مودی کی قیاد ت میں بے انتہا معاشی ترقی کی ہے اور وہ ایک نمونہ ہے۔ لیکن حال ہی میں بی جے پی کے نیشنل کنونشن میں بی جے پی ہی کے زیر اقتدار ایک دوسری ریاست مدھیہ پردیش کے چیف شیوراج چوہان نے بھی نریندر مودی کے ترقی کے اس دعوے کی تردید کی ہے اور معمر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے بھی صاف الفاظ میں بتایا کہ گجرات ترقی کرنے والی واحد ریاست نہیں ہے، در حقیقت معاشی پیداوار کے لحاظ سے اس کا نمبر پانچواں ہے۔
Pakistan
ان حالات میں یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ نہ صرف پارٹی اندورنی طور پر مودی کے نام پر خلفشار کا شکار ہے بلکہ اہل ملک اور امن پسند حلقے بھی اس نام کو پسند نہیں کرتے۔ حالات یہ ہیں کہ اہل ملک غریبی و افلاس سے دوچار ہیں، مہنگائی کی مار ان کو مزید بے چارگی کے عالم میں مبتلا کیے ہوئے ہے،اقلیتی طبقہ بلاثبوت مزید پکڑ دھکڑ میں مبتلا نظر آتا ہے۔
جس کے نتیجہ میں وہ اپنے آپ کو غیر محفوظمحسوس کرتے ہیں۔انگلی آئی ایم اور اس کے کارندوں پر اٹھائی جاتی ہے لیکن جب ان کے ہیڈ کوارٹر کے بارے میں لوگ سوا ل کرتے ہیں تو جواب ندارد۔ان حالات میںکانگریس اور ان کے اتحادیوںکو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ صرف بیان بازی میں ایک دوسرے کو زیر کرنے سے ملک اور اہل ملک کے مسائل حل نہیں ہون گے۔اور اگر اہل ملک مزید پریشانیوں میں مبتلا ہوئے تو پھر2014میںکانگریس اتنی آسانی سے اقتدار پر قابض نہیں ہو سکتی جتنا کہ وہ سمجھتی ہے۔ تحریر : محمد آصف اقبال