سیز فائر کی خلاف ورزیاں: بھارت چاہتا کیا ہے؟

Indian Army

Indian Army

تحریر : ڈاکٹر یاسمین فاطمہ زیدی
جنگی جنون میں مبتلا بھارتی افواج نے پیر کے روز ایک بار پھر ایل او سی پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا’ جس سے پاک فوج کے 7 جوان شہید ہو گئے۔ بھارتی افواج کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ کا سلسلہ بھمبر سیکٹر میں شروع ہوا’ جو خاصی دیر تک جاری رہا۔ بھارتی افواج کی فائرنگ کے جواب میں پاکستانی افواج کی فائرنگ کے نتیجے میں تین بھارتی چوکیاں تباہ’ جبکہ متعدد بھارتی فوجی جہنم واصل ہو گئے۔ پاکستان کی جانب سے بھارتی افواج کی فائرنگ پر شدید احتجاج کیا گیا۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی گولہ باری کے نتیجے میں ہونے والا جانی اور مالی نقصان افسوسناک اور تکلیف دہ ہے۔ اس بہیمانہ کارروائی پر بھارتی حکومت کی جتنی مذمت کی جائے’ کم ہے۔ حکومت کو بھارت کی ایسی جنونی کارروائیوں کے سدباب کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ یوں تو جب سے بھارت میں مودی سرکار برسر اقتدار آئی ہے’ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے مسلسل جاری ہے… جس کے نتیجے میں اب تک درجنوں پاکستانی فوجی اور سویلین شہید ہو چکے ہیں’ املاک’ فصلوں کی تباہی اور مویشیوں کی ہلاکتیں اس پر مستزاد… لیکن حالیہ ہفتوں’ خصوصاً پچھلے چند روز میں بھارتی گولہ باری اور فائرنگ میں شدت آگئی ہے۔

اب کوئی دن ایسا نہیں جاتا’ جب بھارتی فوج لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی نہ کرے۔ پچھلے دنوں تو بھارتی فوج کی جانب سے گولہ باری کے لیے باقاعدہ توپ خانہ استعمال کیا گیا؛ چنانچہ اس بات میں اب کوئی شبہ باقی نہیں کہ مودی سرکار اپنے سرجیکل سٹرائیکس کے جھوٹ سے ہونے والی سبکی ختم کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول پر درجہ حرارت بلند کیے اور رکھے ہوئے ہے۔ ان ساری کارروائیوں کا ایک مقصد مقبوضہ کشمیر میں تیزی سے شدت اختیار کرتی ہوئی تحریک آزادی سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا اور بٹانا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال یہ ہے کہ متحدہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے ہڑتال کی کال کے باعث اتوار کے روز مسلسل 128ویں دن بھی معمول کی زندگی مفلوج، پٹرول پمپ اور دیگر کاروباری ادارے بند رہے۔ بھارتی فورسز نے ضلع بڈگام کے علاقے نارہ بل میں چھاپوں کے دوران کم از کم 14 نوجوان گرفتار کر لیے۔

ان حالات میں اس اندیشے کو مسترد یا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت لائن اف کنٹرول کی بار بار خلاف ورزی کرکے پاکستان کو زچ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ شدید اور بھرپور کارروائی پر مجبور ہو جائے اور اس طرح بھارت کو ایک فْل سکیل جنگ شروع کرنے’ اپنے جنگی ڈاکٹرائن ا?زمانے’ پاکستان کو نیچا دکھانے اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر قابو پانے کا موقع مل جائے۔ لیکن پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھارتی حکومت اور فوج پر ببانگ دہل واضح کر رکھا ہے کہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی بھارت کو مہنگی پڑے گی۔

Raheel Sharif

Raheel Sharif

گزشتہ برس چھ ستمبر کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا تھا’ ”کولڈ سٹارٹ ہو یا ہاٹ سٹارٹ’ ہم تیار ہیں!” اس کے بعد بھارت کو پاکستان پر حملہ ا?ور ہونے کی جرات تو نہیں ہونا چاہیے’ لیکن لگتا ہے کہ اس کا جنگی جنون کم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ اس کی اشتعال انگیزیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ بھارتی دھمکیوں اور اس کی جانب سے اس منصوبے کے مخالفین کو ابھارنے کے باوجود پاکستان سی پیک کا منصوبہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت کو اس کی یہ کامیابی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں ہو رہی؛ چنانچہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر روزانہ کی بنیاد پر فائرنگ اور گولہ باری کا ایک مقصد اس منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ بھارتی حکومت کا پروگرام غالباً یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر محاذ گرم رکھ کر اس منصوبے میں دلچسپی لینے اور اس سے مستفید ہونے کا سوچنے والوں کے حوصلے پست کر دیے جائیں’ اور یوں اس راہداری کو سنسان اور ویران کر دیا جائے۔

بھارت کو اس سلسلے میں کامیابی نہیں مل سکے گی’ کیونکہ اس راستے سے اتوار کے روز تجارت کا ا?غاز ہو گیا ہے اور آنے والے دنوں اور مہینوں میں اس راہ داری کی رونقیں بڑھنے والی ہیں۔ بی این پی توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ بھارت کی ان تمام اشتعال انگیزیوں کے ردعمل میں ہم نے اپنی تمام تر کارروائی احتجاجی مراسلے تک محدود رکھی یا پچھلے دنوں کچھ سفیروں کو اس بارے میں بریفنگ دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کے حوصلے بڑھتے جا رہے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ گزشتہ روز بھارتی فوج کی فائرنگ سے ہمارے سات جوانوں نے جام شہادت پیا۔ 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھی ایسی ہی صورتحال اس وقت پیدا ہو گئی تھی’ جب بھارت اپنی افواج سرحدوں پر لے ا?یا اور اس خطے پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے تھے۔

Pakistan

Pakistan

اس وقت پاکستان نے دوٹوک اور ٹھوس ردعمل ظاہر کیا تھا اور بھارتی جارحیت کا مقابل کرنے کی مکمل تیاری کر لی’ عالمی برادری کو بھی اس معاملے میں شریک کیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کو اپنی افواج سرحدوں سے واپس لے جانا پڑیں۔ اب بھی ویسے ہی عزم’ حوصلے’ ولولے اور جذبے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں سفارتی محاذ پر وہ تحرّک اور جوش نظر نہیں آتا’ جو ایسے موقع پر ہونا چاہیے تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ بھارت لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کر دے تو ہمارے قومی وجود میں تھوڑی سی حرکت پیدا ہوتی ہے’ لیکن چند ہی روز میں حالات ایسے ہو جاتے ہیں’ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہمیں احتجاجی مراسلوں سے آگے بڑھ کر اس معاملے کو سرگرمی سے عالمی فورموں پر اٹھایا جانا چاہیے تاکہ بھارت کے ہاتھ روکے جا سکیں۔

تحریر : ڈاکٹر یاسمین فاطمہ زیدی